Book - حدیث 3724

كِتَابُ الْأَشْرِبَةِ بَابٌ فِي الْكَرْعِ صحیح حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنِي فُلَيْحٌ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ عَلَى رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ وَهُوَ يُحَوِّلُ الْمَاءَ فِي حَائِطِهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >إِنْ كَانَ عِنْدَكَ مَاءٌ بَاتَ هَذِهِ اللَّيْلَةَ فِي شَنٍّ وَإِلَّا كَرَعْنَا قَالَ بَلْ عِنْدِي مَاءٌ بَاتَ فِي شَنٍّ<.

ترجمہ Book - حدیث 3724

کتاب: مشروبات سے متعلق احکام و مسائل باب: زمین کے کسی حصے میں جمع شدہ صاف پانی منہ لگا کر پینا سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ اپنے ایک صحابی کے ساتھ ایک انصاری کے ہاں تشریف لے گئے جب کہ وہ اپنے باغ میں پانی لگا رہا تھا ۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” اگر تمہارے پاس ایسا پانی ہے جو رات بھر مشکیزے میں ہو ( تو لے آؤ ) ورنہ ہم کنوئیں کے حوض میں جمع شدہ پانی ہی منہ لگا کر پی لیتے ہیں ۔ “ اس نے کہا : ہاں ‘ میرے پاس مشکیزے میں رات کا پانی موجود ہے ۔
تشریح : فائدہ۔(کرع)کے متعدد معنی ہیں۔(کراع)انسان کی پنڈلی یا جانور کے اگلے پچھلے پائوں کے اوپرگھنٹے تک کے حصے کوکہتے ہیں۔حافظ ابن حجر نے ابن التین کے حوالے سے ابو عبد الملک سے نقل کیاہے۔کہ اس کے معنی دونوں ہاتھوں سے پانی پینا ہیں۔ ابن تین نے اسے اہل لغت کے خلاف قراردیا ہے۔لیکن (کراع) کے اصل معنی کے حوالے سے یہ مفہوم غلط نہیں۔(کراع الارض)زمین کے کناے کو کہتے ہیں۔ جہاں گہرا ہونے کی وجہ سے بارش کاصاف پانی جمع ہوجاتا ہے۔(کراع) پہاڑ یا پتھریلے میدانوں سے نکلنے والے پانی کو بھی کہتے ہیں۔(کرع القوم)یا(اکر ع القوم)کے معنی ہیں۔ کہ لوگوں کو بارش وغیرہ کا جمع شدہ پانی مل گیا۔جو انہوں نے استعمال کیا۔(لسان العرب۔کرع)یہاں یہی معنی مراد ہیں۔رسول اللہ ﷺ نے انصاری سے فرمایا۔ اگر تمہارے پاس ایسا پانی ہو جو رات بھر سے مشکیزے میں ہے۔(تو لے آئو)ورنہ ہم حوض سے جمع شدہ پانی پی لیتے ہیں۔(کرع)کے ایک معنی برتن یا ہاتھ استعمال کئے بغیر جانوروں کی طرح منہ سے پانی پینا بھی ہیں۔ بہت سے مترجمین نے اس حدیث کا ترجمہ اس طرح کیا ہے۔امام نووی نے بھی ریاض الصالحین(باب جواز الشرب من جمیع الاوانی۔۔۔)میں اس کے یہی معنی بیان کیے ہیں۔اس لئے اسے بھی غلط نہیں کہا جاسکتا۔اور اس مفہو م کے اعتبار سے بوقت ضرورت اس طرح پانی پینے کا جواز کا اثبات ہوتا ہے۔ فائدہ۔(کرع)کے متعدد معنی ہیں۔(کراع)انسان کی پنڈلی یا جانور کے اگلے پچھلے پائوں کے اوپرگھنٹے تک کے حصے کوکہتے ہیں۔حافظ ابن حجر نے ابن التین کے حوالے سے ابو عبد الملک سے نقل کیاہے۔کہ اس کے معنی دونوں ہاتھوں سے پانی پینا ہیں۔ ابن تین نے اسے اہل لغت کے خلاف قراردیا ہے۔لیکن (کراع) کے اصل معنی کے حوالے سے یہ مفہوم غلط نہیں۔(کراع الارض)زمین کے کناے کو کہتے ہیں۔ جہاں گہرا ہونے کی وجہ سے بارش کاصاف پانی جمع ہوجاتا ہے۔(کراع) پہاڑ یا پتھریلے میدانوں سے نکلنے والے پانی کو بھی کہتے ہیں۔(کرع القوم)یا(اکر ع القوم)کے معنی ہیں۔ کہ لوگوں کو بارش وغیرہ کا جمع شدہ پانی مل گیا۔جو انہوں نے استعمال کیا۔(لسان العرب۔کرع)یہاں یہی معنی مراد ہیں۔رسول اللہ ﷺ نے انصاری سے فرمایا۔ اگر تمہارے پاس ایسا پانی ہو جو رات بھر سے مشکیزے میں ہے۔(تو لے آئو)ورنہ ہم حوض سے جمع شدہ پانی پی لیتے ہیں۔(کرع)کے ایک معنی برتن یا ہاتھ استعمال کئے بغیر جانوروں کی طرح منہ سے پانی پینا بھی ہیں۔ بہت سے مترجمین نے اس حدیث کا ترجمہ اس طرح کیا ہے۔امام نووی نے بھی ریاض الصالحین(باب جواز الشرب من جمیع الاوانی۔۔۔)میں اس کے یہی معنی بیان کیے ہیں۔اس لئے اسے بھی غلط نہیں کہا جاسکتا۔اور اس مفہو م کے اعتبار سے بوقت ضرورت اس طرح پانی پینے کا جواز کا اثبات ہوتا ہے۔