Book - حدیث 3715

كِتَابُ الْأَشْرِبَةِ بَابٌ فِي شَرَابِ الْعَسَلِ صحیح حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ الْحَلْوَاءَ وَالْعَسَلَ فَذَكَرَ بَعْضَ هَذَا الْخَبَرِ وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَشْتَدُّ عَلَيْهِ أَنْ تُوجَدَ مِنْهُ الرِّيحُ وَفِي هَذَا الْحَدِيثِ قَالَتْ سَوْدَةُ بَلْ أَكَلْتَ مَغَافِيرَ قَالَ بَلْ شَرِبْتُ عَسَلًا سَقَتْنِي حَفْصَةُ فَقُلْتُ: جَرَسَتْ نَحْلُهُ الْعُرْفُطَ نَبْتٌ مِنْ نَبْتِ النَّحْلِ. قَالَ أَبو دَاود: الْمَغَافِيرُ مُقْلَةٌ وَهِيَ صَمْغَةٌ وَجَرَسَتْ رَعَتْ وَالْعُرْفُطُ نَبْتٌ مِنْ نَبْتِ النَّحْلِ.

ترجمہ Book - حدیث 3715

کتاب: مشروبات سے متعلق احکام و مسائل باب: شہد پینے کا بیان ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓا کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو میٹھا اور شہد بہت پسند تھا اور مذکورہ بالا قصے کا کچھ حصہ بیان کیا ( اور کہا کہ ) رسول اللہ ﷺ کو یہ بات بہت گراں محسوس ہوتی تھی کہ آپ ﷺ سے کوئی ناگوار بو آئے ۔ اس حدیث میں ہے کہ سیدہ سودہ ؓا نے کہا : بلکہ آپ ﷺ نے مغافیر ( جنڈی کا رس ) پیا ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ” ( نہیں ) بلکہ میں نے تو شہد پیا ہے جو مجھے حفصہ نے پلایا ہے ۔ “ تو میں نے کہا : ( شاید ) شہد کی مکھی نے عرفط کا رس چوسا ہو گا ۔ ( عرفط ) ایک بوٹی کا نام ہے جس پر شہد کی مکھی بیٹھتی ہے ۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ «مغافير» ایک طرح کی گوند سی ہوتی ہے ۔ اور «جرست» کے معنی ہیں ” اس نے چوسا ہو گا اور «عرفط» ایک بوٹی ہوتی ہے جس پر شہد کی مکھی بیٹھتی ہے ۔
تشریح : فوائد ومسائل۔1۔شہد اللہ تعالیٰ کی عظیم جامع نعمتوں میں سے ہے۔ اور بے شمار بیماریون کا تریاق ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔( فِيهِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ) (النحل۔69) اس میں لوگوں کے لئے شفاء ہے۔ 2۔کسی بھی حلال چیز کو اپنے لئے حرام قرار دے لینا نبی کریمﷺکے لئے بھی جائز نہ تھا۔3۔مذکورہ بالا اور اس قسم کے دیگر واقعات میں ازواج نبیﷺکی آپس میں کشاکش اس بات کی تصریح ہے کہ وہ اس دنیا کی مخلوق تھیں۔معاشرتی زندگی کے حوالے سے ان کے جزبات فطری تھے۔ وہ معصوم عن الخطا نہ تھیں۔ مگر اللہ عزوجل نے انہیں نبی کریمﷺ کی دل ب بستگی او ر اشاعت دین کےلئے منتخب فرمایا لیاتھا۔ ان میں سے ہر ایک کی یہ پُرزور تمنا اورانتہائی کوشش ہوتی تھی کہ جس طرح بھی بن پائے وہ محمد رسول اللہﷺ کی الفت ومحبت اور التفات کا زیادہ سے زیادہ حصہ وصول کرلے۔ اور یہ عین ایمان بھی ہے اس صورت حال میں اس انداز کے معمولی جھول نظرانداز کردینے کے لائق تھے۔اور ہیں۔جہاں ضروری سمجھا گیا تنبیہ بھی کی گئی ان ازواج مطہرات کا جو قلبی وقالبی ربط وضبط رسول اللہﷺکے ساتھ تھا۔اس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے انھیں مخاطب کرکے فرمایا (يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ ۚ)(الاحزاب۔32) اے نبیﷺ! کی بیویوں تم عام عورتوں کیطرح نہیں ہو۔ اور نبی کریمﷺ سے فرمایا۔ ( لَّا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِن بَعْدُ وَلَا أَن تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ ۗ)(الاحزاب۔52) اے نبی ﷺ !آپ کے لئے ان بیویوں کے بعد اور کوئی عورت حلال نہیں۔ اور نہ آپﷺ ان کے بدلے کوئی او رلاسکتے ہیں۔خواہ ان کا حسن آپ کوکتنا ہی پسند کیوں نہ آئے۔ہاں لونڈیاں جائز ہیں۔ انہی فضائل کی بنا پر یہ امت کی مایئں قرار دی گیئں ہیں۔ رضی اللہ تعالیٰ عنھن وارضاھن۔ فوائد ومسائل۔1۔شہد اللہ تعالیٰ کی عظیم جامع نعمتوں میں سے ہے۔ اور بے شمار بیماریون کا تریاق ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔( فِيهِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ) (النحل۔69) اس میں لوگوں کے لئے شفاء ہے۔ 2۔کسی بھی حلال چیز کو اپنے لئے حرام قرار دے لینا نبی کریمﷺکے لئے بھی جائز نہ تھا۔3۔مذکورہ بالا اور اس قسم کے دیگر واقعات میں ازواج نبیﷺکی آپس میں کشاکش اس بات کی تصریح ہے کہ وہ اس دنیا کی مخلوق تھیں۔معاشرتی زندگی کے حوالے سے ان کے جزبات فطری تھے۔ وہ معصوم عن الخطا نہ تھیں۔ مگر اللہ عزوجل نے انہیں نبی کریمﷺ کی دل ب بستگی او ر اشاعت دین کےلئے منتخب فرمایا لیاتھا۔ ان میں سے ہر ایک کی یہ پُرزور تمنا اورانتہائی کوشش ہوتی تھی کہ جس طرح بھی بن پائے وہ محمد رسول اللہﷺ کی الفت ومحبت اور التفات کا زیادہ سے زیادہ حصہ وصول کرلے۔ اور یہ عین ایمان بھی ہے اس صورت حال میں اس انداز کے معمولی جھول نظرانداز کردینے کے لائق تھے۔اور ہیں۔جہاں ضروری سمجھا گیا تنبیہ بھی کی گئی ان ازواج مطہرات کا جو قلبی وقالبی ربط وضبط رسول اللہﷺکے ساتھ تھا۔اس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے انھیں مخاطب کرکے فرمایا (يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ ۚ)(الاحزاب۔32) اے نبیﷺ! کی بیویوں تم عام عورتوں کیطرح نہیں ہو۔ اور نبی کریمﷺ سے فرمایا۔ ( لَّا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِن بَعْدُ وَلَا أَن تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ ۗ)(الاحزاب۔52) اے نبی ﷺ !آپ کے لئے ان بیویوں کے بعد اور کوئی عورت حلال نہیں۔ اور نہ آپﷺ ان کے بدلے کوئی او رلاسکتے ہیں۔خواہ ان کا حسن آپ کوکتنا ہی پسند کیوں نہ آئے۔ہاں لونڈیاں جائز ہیں۔ انہی فضائل کی بنا پر یہ امت کی مایئں قرار دی گیئں ہیں۔ رضی اللہ تعالیٰ عنھن وارضاھن۔