كِتَابُ الْعِلْمِ بَابٌ كِتَابَةِ الْعِلْمِ ضعيف الإسناد حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ أَخْبَرَنَا أَبُو أَحْمَدَ حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَنْطَبٍ قَالَ دَخَلَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ عَلَى مُعَاوِيَةَ فَسَأَلَهُ عَنْ حَدِيثٍ فَأَمَرَ إِنْسَانًا يَكْتُبُهُ فَقَالَ لَهُ زَيْدٌ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَنَا أَنْ لَا نَكْتُبَ شَيْئًا مِنْ حَدِيثِهِ فَمَحَاهُ
کتاب: علم اور اہل علم کی فضیلت
باب: علمی باتیں ضبط تحریر میں لانے کا بیان
مطلب بن عبداللہ بن حنطب سے منقول ہے کہ سیدنا زید بن ثابت ؓ ، سیدنا معاویہ ؓ کے ہاں آئے تو انہوں نے ان سے ایک حدیث کے بارے میں پوچھا ۔ تو معاویہ ؓ نے ایک شخص سے کہا کہ اسے لکھ لو ، تو سیدنا زید بن ثابت ؓ نے ان سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ھکم دیا تھا کہ ہم ان کی کوئی حدیث ضبط تحریر میں نہ لائیں ۔ چنانچہ انہوں نے اسے مٹا دیا ۔
تشریح :
فائدہ۔یہ روایت سندا ضعیف ہے۔تاہم ایک صحیح حدیث بھی ہے۔جس میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ تم مجھ سے قرآن کے والوہ کچھ نہ لکھو۔اور قرآن کے علاوہ کچھ مجھ سے لکھا ہے۔تو اسے مٹا دو۔اورمجھ سے حدیث بیان کرو۔اس میں کوئی حرج نہیں۔ (صحیح مسلم۔الذھد۔باب الثبت فی الحدیث وحکم کتابۃ العلم حدیث 3004) اس حدیث میں حدیث رسول لکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ جب کہ دوسری روایات سے صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کے احادیث لکھنے کا اثبات ہوتا ہے۔اورخود نبی ﷺ کی طرف سے حدیث کے لکھنے کا حکم ملتا ہے۔علماء نے ان کے درمیان یہ تطبیق دی ہے۔کہ جن صحابہرضوان اللہ عنہم اجمعین کی قوت ضبط وحافظہ زیادہ تھی۔(اور عربوں میں یہ خوبی عام تھی) ان کو آپ نے حدیث لکھنے سے منع فرمایا۔ تاکہ وہ کتابت ہی پر سارا بھر وسا نہ کریں۔اورحفظ وضبط سے بے نیاز نہ ہوجایئں۔اور لکھنے کا حکم اور اس کی اجازت ان لوگوں کو دی جن کی قوت حافظہ کمزور تھی۔دوسری توجیہ اس ی یہ کی گئی ہے کہ ابتداء میں حدیث لکھنے سے روک دیا گیا تھا تاکہ قرآن کے ساتھ اس کا اختلاط نہ ہو۔اور جب صحابہ قرآن کے اسلوب سے اچھی طرح واقف ہوگئے اور اختلاط کا خطرہ نہ رہا تو احادیث لکھنے کی بھی اجازت دے دی گئی ۔تیسری تطبیق یہ ہے کہ نہی کا مطلب یہ تھا کہ ایک ہی صحیفے میں قرآن کے ساتھ حدیث نہ لکھوتا کہ پڑھنے والااشتباہ میں نہ پڑے۔(شرح نووی)بہر حال ممانعت کی حدیث سے یہ استدلال کرنا کہ حدیث کی حفاظت کااہتمام نہیں کیاگیا۔بلکہ اس س روک دیاگیا۔یکسرغلط ہے۔اگر اس کایہ مقصد ہوتا تو پھر آپ اسی حدیث میں حدیث بیان کرنے کی اجازت کیوں دیتے؟جو حفظ وضبط کے بغیر ممکن ہی نہیں اسی طرح حدیث رسول ﷺ کو اچھی طرح یاد کرکے اسےآگے بیان کرنے والے کےلئے نبی کریمﷺدعائے خیر کیوں فرماتے ؟بہرحال یہ امرمسلمہ ہے کہ آپﷺ کی حیات مبارکہ میں احادیث ضبط تحریر میں لائی گئی تھیں۔
فائدہ۔یہ روایت سندا ضعیف ہے۔تاہم ایک صحیح حدیث بھی ہے۔جس میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ تم مجھ سے قرآن کے والوہ کچھ نہ لکھو۔اور قرآن کے علاوہ کچھ مجھ سے لکھا ہے۔تو اسے مٹا دو۔اورمجھ سے حدیث بیان کرو۔اس میں کوئی حرج نہیں۔ (صحیح مسلم۔الذھد۔باب الثبت فی الحدیث وحکم کتابۃ العلم حدیث 3004) اس حدیث میں حدیث رسول لکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ جب کہ دوسری روایات سے صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کے احادیث لکھنے کا اثبات ہوتا ہے۔اورخود نبی ﷺ کی طرف سے حدیث کے لکھنے کا حکم ملتا ہے۔علماء نے ان کے درمیان یہ تطبیق دی ہے۔کہ جن صحابہرضوان اللہ عنہم اجمعین کی قوت ضبط وحافظہ زیادہ تھی۔(اور عربوں میں یہ خوبی عام تھی) ان کو آپ نے حدیث لکھنے سے منع فرمایا۔ تاکہ وہ کتابت ہی پر سارا بھر وسا نہ کریں۔اورحفظ وضبط سے بے نیاز نہ ہوجایئں۔اور لکھنے کا حکم اور اس کی اجازت ان لوگوں کو دی جن کی قوت حافظہ کمزور تھی۔دوسری توجیہ اس ی یہ کی گئی ہے کہ ابتداء میں حدیث لکھنے سے روک دیا گیا تھا تاکہ قرآن کے ساتھ اس کا اختلاط نہ ہو۔اور جب صحابہ قرآن کے اسلوب سے اچھی طرح واقف ہوگئے اور اختلاط کا خطرہ نہ رہا تو احادیث لکھنے کی بھی اجازت دے دی گئی ۔تیسری تطبیق یہ ہے کہ نہی کا مطلب یہ تھا کہ ایک ہی صحیفے میں قرآن کے ساتھ حدیث نہ لکھوتا کہ پڑھنے والااشتباہ میں نہ پڑے۔(شرح نووی)بہر حال ممانعت کی حدیث سے یہ استدلال کرنا کہ حدیث کی حفاظت کااہتمام نہیں کیاگیا۔بلکہ اس س روک دیاگیا۔یکسرغلط ہے۔اگر اس کایہ مقصد ہوتا تو پھر آپ اسی حدیث میں حدیث بیان کرنے کی اجازت کیوں دیتے؟جو حفظ وضبط کے بغیر ممکن ہی نہیں اسی طرح حدیث رسول ﷺ کو اچھی طرح یاد کرکے اسےآگے بیان کرنے والے کےلئے نبی کریمﷺدعائے خیر کیوں فرماتے ؟بہرحال یہ امرمسلمہ ہے کہ آپﷺ کی حیات مبارکہ میں احادیث ضبط تحریر میں لائی گئی تھیں۔