Book - حدیث 3632

كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ بَابٌ فِي الْوَكَالَةِ ضعیف حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا عَمِّي، حَدَّثَنَا أَبِي عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي نُعَيْمٍ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يُحَدِّثُ، قَالَ: أَرَدْتُ الْخُرُوجَ إِلَى خَيْبَرَ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، وَقُلْتُ لَهُ: إِنِّي أَرَدْتُ الْخُرُوجَ إِلَى خَيْبَرَ! فَقَالَ: >إِذَا أَتَيْتَ وَكِيلِي, فَخُذْ مِنْهُ خَمْسَةَ عَشَرَ وَسْقًا، فَإِنِ ابْتَغَى مِنْكَ آيَةً, فَضَعْ يَدَكَ عَلَى تَرْقُوَتِهِ<.

ترجمہ Book - حدیث 3632

کتاب: قضاء کے متعلق احکام و مسائل باب: کسی کو اپنا وکیل بنانا سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے مروی ہے کہ میں نے خیبر جانے کا ارادہ کیا تو میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ کو سلام پیش کیا اور عرض کیا کہ میں خیبر جانا چاہتا ہوں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ” جب تم میرے وکیل کے پاس پہنچو تو اس سے پندرہ وسق وصول کر لینا ۔ اور اگر وہ تم سے کوئی علامت ( نشانی ) طلب کرے تو اپنا ہاتھ اس کے گلے پر رکھ دینا ۔ “
تشریح : فائدہ۔ یہ روایت سندا ضعیف ہے۔تاہم وکیل بننا بنانا جائز ہے۔اورصحیح احادیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے ذاتی کام اپنے وکیل کے زریعے سے کروالیا کرتے تھے۔ جیسے کہ بکری خریدنے کاواقعہ ہے۔(صحیح البخاری۔المناقب۔حدیث 3642)علاوہ ازیں عمال حکومت سبھی ر سول اللہ ﷺ کے نائب اوروکیل ہی ہوا کرتے تھے۔آجکل کے عدالتی نظام میں وکالت ناگزیر ہے۔اس کے بغیر اپنا حق وصول کرنا ناممکن ہے۔ اس بنا پر صاحب حق کےلئے تو اپنے حق کی وصولی کےلئے وکیل بنانا اور کسی شخص کا اس کےلئے وکیل بنناجائز ہے۔لیکن کسی دوسرے کا حق غصب کرکے عدالت سے اس پر مہر تصدیق ثبت کرانے کے لئے کسی کو وکیل بنایا اور اس ظالم وغاصب کی وکالت کے لئے کسی کا وکیل بننا قطعا جائز نہیں ہے۔ایسی وکالت کاسارا معاوضہ یکسر حرام اورناجائز ہے۔ فائدہ۔ یہ روایت سندا ضعیف ہے۔تاہم وکیل بننا بنانا جائز ہے۔اورصحیح احادیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے ذاتی کام اپنے وکیل کے زریعے سے کروالیا کرتے تھے۔ جیسے کہ بکری خریدنے کاواقعہ ہے۔(صحیح البخاری۔المناقب۔حدیث 3642)علاوہ ازیں عمال حکومت سبھی ر سول اللہ ﷺ کے نائب اوروکیل ہی ہوا کرتے تھے۔آجکل کے عدالتی نظام میں وکالت ناگزیر ہے۔اس کے بغیر اپنا حق وصول کرنا ناممکن ہے۔ اس بنا پر صاحب حق کےلئے تو اپنے حق کی وصولی کےلئے وکیل بنانا اور کسی شخص کا اس کےلئے وکیل بنناجائز ہے۔لیکن کسی دوسرے کا حق غصب کرکے عدالت سے اس پر مہر تصدیق ثبت کرانے کے لئے کسی کو وکیل بنایا اور اس ظالم وغاصب کی وکالت کے لئے کسی کا وکیل بننا قطعا جائز نہیں ہے۔ایسی وکالت کاسارا معاوضہ یکسر حرام اورناجائز ہے۔