كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ بَابٌ إِذَا كَانَ الْمُدَّعَى عَلَيْهِ ذِمِّيًّا أَيَحْلِفُ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ شَقِيقٍ عَنِ الْأَشْعَثِ قَالَ كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَ رَجُلٍ مِنَ الْيَهُودِ أَرْضٌ، فَجَحَدَنِي، فَقَدَّمْتُهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >أَلَكَ بَيِّنَةٌ؟<ظ، قُلْتُ: لَا، قَالَ لِلْيَهُودِيِّ: >احْلِفْ<، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِذًا، يَحْلِفُ وَيَذْهَبُ بِمَالِي! فَأَنْزَلَ اللَّهُ: {إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا...}[آل عمران: 77], إِلَى آخِرِ الْآيَةِ.
کتاب: قضاء کے متعلق احکام و مسائل
باب: کیا جب مدعا علیہ ذمی ( کافر ) ہو تو وہ بھی قسم کھائے
سیدنا اشعث بن قیس ؓ سے مروی ہے ‘ وہ کہتے ہیں کہ میرے اور ایک یہودی کے مابین زمین کی شراکت داری تھی ‘ جو وہ مجھے دینے سے انکاری ہو گیا ۔ تو میں اسے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں لے گیا ۔ نبی کریم ﷺ نے مجھے فرمایا ” کیا کوئی تمہار گواہ ہے ؟ “ میں نے کہا : نہیں ۔ آپ ﷺ نے یہودی سے کہا : ” قسم اٹھاؤ ۔ “ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! وہ تو قسم اٹھا لے گا اور میرا مال مار لے گا ‘ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فر دی «إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم ثمنا قليلا» ” بیشک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ‘ اللہ تعالیٰ ان سے نہ تو بات کرے گا اور نہ قیامت کے دن ان کی طرف دیکھے گا ‘ نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کیلئے درد ناک عذاب ہے ۔ “
تشریح :
فائدہ۔کافر کے ساتھ اگر معاملہ قسم پرآٹھرےتو اس سے اللہ کے پاک اور عظیم نام ہی کی قسم لیجائے۔اگر وہ جھوٹی قسم کھاجاتے تو صبر کرتے ہوئے یقین رکھنا چاہیے۔ کہ وہ اس جھوٹی قسم کے وبال سے بچ نہیں سکےگا۔
فائدہ۔کافر کے ساتھ اگر معاملہ قسم پرآٹھرےتو اس سے اللہ کے پاک اور عظیم نام ہی کی قسم لیجائے۔اگر وہ جھوٹی قسم کھاجاتے تو صبر کرتے ہوئے یقین رکھنا چاہیے۔ کہ وہ اس جھوٹی قسم کے وبال سے بچ نہیں سکےگا۔