Book - حدیث 3602

كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ بَابُ شَهَادَةِ الْبَدَوِيِّ عَلَى أَهْلِ الْأَمْصَارِ صحیح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الْهَمَدَانِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ وَنَافِعُ بْنُ يَزِيدَ عَنِ ابْنِ الْهَادِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: >لَا تَجُوزُ شَهَادَةُ بَدَوِيٍّ عَلَى صَاحِبِ قَرْيَةٍ<.

ترجمہ Book - حدیث 3602

کتاب: قضاء کے متعلق احکام و مسائل باب: شہری کے خلاف دیہاتی کی گواہی سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ ” کسی دیہاتی کی شہری کے خلاف گواہی جائز نہیں ۔ “
تشریح : فائدہ۔بدوی ہادیہ سے ہے۔کے خانہ بدوش کو کہتے ہیں۔ جو ایک جگہ کے ساکن نہیں ہوتے۔بلکہ مسلسل ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہتے ہیں۔اگرکوئی بدوی سمجھ دار اور عدول ہو تو فی نفسہ اس کی گواہی معبتر ہوگی۔خود رسول اللہ ﷺ نے رمضان کے چاند کی رویئت میں بدوی کی شہادت قبول فرمائی۔(ابودائود الصوم۔باب فی الشھادۃ الواحد علی رویۃ ھلال رمضان ) اس حدیث سے جو یہ بات سمجھائی گئی ہے۔وہ یہ ہے کہ بدوی عموما مستقل آبادیوں کے حالات عادات رسم ورواج اور طور طریقوں سے واقف نہیں ہوتے۔نیز بڑے سادہ لوح ہوتے ہیں۔اس لئے مشاہدے میں انھیں غلطی لگنے یاعدم فہم کاامکان زیادہ ہوتاہے۔اس لئے کسی بستی یا شہر کے رہنے والے کے معاملے میں ان کی گواہی پراعتراض واقع ہوگا۔اس سبب سے اس کی گواہی قبول نہیں کی جاسکتی۔وہ معاملات جن کا فہم اہل ہادیہ کے لئے آسان ہے۔اس میں ان کی گواہی ہرطرح معتبر ہے۔اس حدیث میں یہ بھی ثابت ہواکہ کسی بھی معاملے میں گواہی تب معتبر ہوگی۔جب اس معاملے کے عمومی فہم کی استعداد موجود ہو۔کسی خالص فنی معاملے میں عام انسا نوں کی گواہی معتبر نہ ہوگی۔جب تک وہ اس معاملے کافہم نہ رکھتا ہو۔ فائدہ۔بدوی ہادیہ سے ہے۔کے خانہ بدوش کو کہتے ہیں۔ جو ایک جگہ کے ساکن نہیں ہوتے۔بلکہ مسلسل ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہتے ہیں۔اگرکوئی بدوی سمجھ دار اور عدول ہو تو فی نفسہ اس کی گواہی معبتر ہوگی۔خود رسول اللہ ﷺ نے رمضان کے چاند کی رویئت میں بدوی کی شہادت قبول فرمائی۔(ابودائود الصوم۔باب فی الشھادۃ الواحد علی رویۃ ھلال رمضان ) اس حدیث سے جو یہ بات سمجھائی گئی ہے۔وہ یہ ہے کہ بدوی عموما مستقل آبادیوں کے حالات عادات رسم ورواج اور طور طریقوں سے واقف نہیں ہوتے۔نیز بڑے سادہ لوح ہوتے ہیں۔اس لئے مشاہدے میں انھیں غلطی لگنے یاعدم فہم کاامکان زیادہ ہوتاہے۔اس لئے کسی بستی یا شہر کے رہنے والے کے معاملے میں ان کی گواہی پراعتراض واقع ہوگا۔اس سبب سے اس کی گواہی قبول نہیں کی جاسکتی۔وہ معاملات جن کا فہم اہل ہادیہ کے لئے آسان ہے۔اس میں ان کی گواہی ہرطرح معتبر ہے۔اس حدیث میں یہ بھی ثابت ہواکہ کسی بھی معاملے میں گواہی تب معتبر ہوگی۔جب اس معاملے کے عمومی فہم کی استعداد موجود ہو۔کسی خالص فنی معاملے میں عام انسا نوں کی گواہی معتبر نہ ہوگی۔جب تک وہ اس معاملے کافہم نہ رکھتا ہو۔