Book - حدیث 3592

كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ بَابُ اجْتِهَادِ الرَّأْيِ فِي الْقَضَاءِ ضعیف حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي عَوْنٍ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَمْرِو ابْنِ أَخِي الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ-، عَنْ أُنَاسٍ مِنْ أَهْلِ حِمْصَ مِنْ أَصْحَابِ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ, أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا أَرَادَ أَنْ يَبْعَثَ مُعَاذًا إِلَى الْيَمَنِ قَالَ: >كَيْفَ تَقْضِي إِذَا عَرَضَ لَكَ قَضَاءٌ؟<. قَالَ: أَقْضِي بِكِتَابِ اللَّهِ! قَالَ: >فَإِنْ لَمْ تَجِدْ فِي كِتَابِ اللَّهِ؟<، قَالَ: فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: >فَإِنْ لَمْ تَجِدْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا فِي كِتَابِ اللَّهِ؟!، قَالَ: أَجْتَهِدُ رَأْيِي وَلَا آلُو، فَضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدْرَهُ، وَقَالَ: >الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ، لِمَا يُرْضِي رَسُولَ اللَّهِ<.

ترجمہ Book - حدیث 3592

کتاب: قضاء کے متعلق احکام و مسائل باب: فیصلہ کرنے میں اجتہاد اور رائے سے کام لینا سیدنا معاذ بن جبل ؓ کے بعض اصحاب نے روایت کیا جو اہل حمص میں سے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب ارادہ فرمایا کہ سیدنا معاذ ؓ کو یمن بھیجیں تو آپ ﷺ نے پوچھا ” جب کوئی مقدمہ تمہارے سامنے پیش ہو گا تو فیصلہ کیسے کرو گے ؟ “ انہوں نے کہا : میں اﷲ کی کتاب سے فیصلہ کروں گا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ” اگر کتاب اﷲ میں نہ ملا تو ؟ “ کہا کہ پھر رسول اللہ ﷺ کی سنت سے ۔ فرمایا ” اگر رسول اللہ ﷺ کی سنت اور کتاب اﷲ میں بھی نہ ملا تو ؟ “ کہا کہ میں اپنی رائے استعمال کرنے میں کمی نہیں کروں گا ۔ تو رسول اللہ ﷺ نے ان کا سینہ تھپکایا اور فرمایا ” حمد ہے اس اﷲ کی جس نے رسول اﷲ کے پیامبر کو اس بات کی توفیق دی جس پر اﷲ کا رسول خوش ہے ۔ “
تشریح : فائدہ۔ یہ روایت فقہاء کے نزدیک بہت زیادہ مشہور ہے۔مگرحققیت یہ ہے کہ سند کے لہاظ سے بالکل ضعیف ہے۔ آئمہ جرح تعدیل میں کوئی بھی اس کی تصیح نہیں کرتا اس کے ضعف کے تین سبب گنوائے گئے ہیں۔1۔مرسل ہے۔2۔اصحاب معاذ مجہول ہیں۔3۔حارث بن عمرومجہول ہے۔امام بخاری کہتے ہیں۔ لايصح ولا يعرف الا مرسلا یہ صحیح نہیں اور جتنے طرق معروف ہیں سبھی مرسل ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں۔ هذا حديث لا تعرفه الا من هذا الوجه وليس اسناده عندي بمتصل یہ حدیث بس اس سند سے مروی ہے۔جو میرے نزدیک متصل نہیں ہے۔امام دراقطنی کہتے ہیں۔(والمرسل اصح) اس کا مرسل ہونا ہی صحیح تر ہے۔ ابن حزم کہتے ہیں۔ (لا يصح الان الحارث مجهول وشيوخه لايعرفون) یہ حدیث صحیح نہیں کیونکہ حارث مجہو ل ہے۔اس کے شیوخ کی بھی خبر نہیں کہ کون ہے۔ ابن طاہر کہتے ہیں۔ لا يصح ابن جوزی نے کہا۔ لا يصح۔ذہبی کہتے ہیں۔ واني له الصحة ؟ ومداره علي الحارث بن عمر وهو مجهول عن رجال من اهل حمص لايدري من هم یہ حدیث کیونکہ صحیح ہوسکتی ہے؟ اس کا مدار حارث بن عمرو پر ہے۔اور وہ خود مجہول ہے۔ اہل حمص سے روایت کرتاہے۔ جن کی خبر نہیں کہ وہ کون ہیں علاوہ ازیں عقیلی سبکی اور ابن حجر ؒ بھی یہی کہتے ہیں۔علامہ البانی ؒفرماتے ہیں۔معنوی اعتبار سے بھی اس میں زبردست خلل ہے۔اس میں حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ قول اس لئے بیان کیا گیاہے کہ پہلے کتاب اللہ سے فیصلہ کروں گا۔اگر اس میں نہ ملا تو پھر سنت رسول اللہ سے اگر اس میں بھی ملا تو پھر رائے استعمال کروں گا حالانکہ یہ ترتیب اورقرآن وسنت کی تفریق کسی طرح صحیح نہیں۔بلکہ قرآن کریم کے ساتھ ساتھ حدیث وسنت کیطرف رجوع کرنا واجب ہے۔کیونکہ سنت قرآن کریم کے مجمل کا بیان کرتی ہے۔مطلق کی تقید اور عموم کی تخصیص کرتی ہے۔الغرض یہ ترتیب صحیح نہیں۔ بلکہ ہر مسئلہ بیک وقت قرآن وسسنت میں تلاش کیاجائے۔ پھر خیروالقرون صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین تابعین وتبع تابعین کے فتاویٰ و معمولات کودیکھا جائے۔اگر نہ ملے تو صاحب علم کو استبناط واستدلال اوراجتہاد کا حق حاصل ہے۔ (ماخوذ اذ سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ علامہ البانی الجزء ثانی حدیث 881) فائدہ۔ یہ روایت فقہاء کے نزدیک بہت زیادہ مشہور ہے۔مگرحققیت یہ ہے کہ سند کے لہاظ سے بالکل ضعیف ہے۔ آئمہ جرح تعدیل میں کوئی بھی اس کی تصیح نہیں کرتا اس کے ضعف کے تین سبب گنوائے گئے ہیں۔1۔مرسل ہے۔2۔اصحاب معاذ مجہول ہیں۔3۔حارث بن عمرومجہول ہے۔امام بخاری کہتے ہیں۔ لايصح ولا يعرف الا مرسلا یہ صحیح نہیں اور جتنے طرق معروف ہیں سبھی مرسل ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں۔ هذا حديث لا تعرفه الا من هذا الوجه وليس اسناده عندي بمتصل یہ حدیث بس اس سند سے مروی ہے۔جو میرے نزدیک متصل نہیں ہے۔امام دراقطنی کہتے ہیں۔(والمرسل اصح) اس کا مرسل ہونا ہی صحیح تر ہے۔ ابن حزم کہتے ہیں۔ (لا يصح الان الحارث مجهول وشيوخه لايعرفون) یہ حدیث صحیح نہیں کیونکہ حارث مجہو ل ہے۔اس کے شیوخ کی بھی خبر نہیں کہ کون ہے۔ ابن طاہر کہتے ہیں۔ لا يصح ابن جوزی نے کہا۔ لا يصح۔ذہبی کہتے ہیں۔ واني له الصحة ؟ ومداره علي الحارث بن عمر وهو مجهول عن رجال من اهل حمص لايدري من هم یہ حدیث کیونکہ صحیح ہوسکتی ہے؟ اس کا مدار حارث بن عمرو پر ہے۔اور وہ خود مجہول ہے۔ اہل حمص سے روایت کرتاہے۔ جن کی خبر نہیں کہ وہ کون ہیں علاوہ ازیں عقیلی سبکی اور ابن حجر ؒ بھی یہی کہتے ہیں۔علامہ البانی ؒفرماتے ہیں۔معنوی اعتبار سے بھی اس میں زبردست خلل ہے۔اس میں حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ قول اس لئے بیان کیا گیاہے کہ پہلے کتاب اللہ سے فیصلہ کروں گا۔اگر اس میں نہ ملا تو پھر سنت رسول اللہ سے اگر اس میں بھی ملا تو پھر رائے استعمال کروں گا حالانکہ یہ ترتیب اورقرآن وسنت کی تفریق کسی طرح صحیح نہیں۔بلکہ قرآن کریم کے ساتھ ساتھ حدیث وسنت کیطرف رجوع کرنا واجب ہے۔کیونکہ سنت قرآن کریم کے مجمل کا بیان کرتی ہے۔مطلق کی تقید اور عموم کی تخصیص کرتی ہے۔الغرض یہ ترتیب صحیح نہیں۔ بلکہ ہر مسئلہ بیک وقت قرآن وسسنت میں تلاش کیاجائے۔ پھر خیروالقرون صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین تابعین وتبع تابعین کے فتاویٰ و معمولات کودیکھا جائے۔اگر نہ ملے تو صاحب علم کو استبناط واستدلال اوراجتہاد کا حق حاصل ہے۔ (ماخوذ اذ سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ علامہ البانی الجزء ثانی حدیث 881)