Book - حدیث 3583

كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ بَابٌ فِي قَضَاءِ الْقَاضِي إِذَا أَخْطَأَ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، وَإِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ، وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ، فَأَقْضِيَ لَهُ عَلَى نَحْوِ مَا أَسْمَعُ مِنْهُ! فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ مِنْ حَقِّ أَخِيهِ بِشَيْءٍ فَلَا يَأْخُذْ مِنْهُ شَيْئًا, فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِنَ النَّارِ<.

ترجمہ Book - حدیث 3583

کتاب: قضاء کے متعلق احکام و مسائل باب: قاضی سے فیصلہ کرنے میں خطا ہو جائے تو ؟ ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ ؓا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” میں ایک بشر ہوں ‘ تم اپنے جھگڑے میرے پاس لاتے ہو اور ہو سکتا ہے کہ تم میں سے کوئی دوسرے کے مقابلے میں اپنی حجت پیش کرنے میں زیادہ چرب زبان ہو اور پھر میں اس سے سننے کے مطابق فیصلہ کر دوں ‘ تو جس کے لیے میں اس کے بھائی کے حق کا فیصلہ کر دوں تو وہ اس سے کچھ نہ لے ۔ بلاشبہ میں اس کے لیے آگ کا ٹکڑا کاٹ رہا ہوں ۔ “
تشریح : فائدہ۔1۔قاضی کا فیصلہ صرف ظاہر میں نافذ ہوتا ہے۔اور مقدمے کے فریقین بالعموم اپن طور پر خوب جان رہے ہوتے ہیں۔کہ حق کس کا ہے اور باطل پر کون ہے۔؟ الا ما شاء اللہ ۔تو جہاں معاملہ صرف ہو وہاں ظالم کو اپنے بھائی کا حق مارتے ہوئے سمجھ لینا چاہیے کہ وہ قاضی کے فیصلے کے باوجود آگ کاٹکڑا لے رہا ہے۔2۔فیصلہ کرنے میں قاضی سے خظا کرسرزد ہوجانا اس کے لئے معاف ہے۔3۔رسول اللہ ﷺ کے اس بیان سے واضح ہواکہ وہ غیب نہ جانتے تھے۔4۔یہ حدیث رسول اللہ ﷺ کے بشر ہونے پر واضح دلالت کرتی ہے۔5۔رسول اللہ ﷺ بعض فیصلے اپنے اجتہاد سے کرتے تھے۔ امت کے قضی ہمیشہ اجتہاد ہی سے فیصلہ کر سکتے ہیں۔ اور ان کے سامنے رسول اللہ ﷺ کااجتہاد اور طریقہ اجتہاد بہترین نمونہ اورحجت ہے ۔واللہ اعلم۔ فائدہ۔1۔قاضی کا فیصلہ صرف ظاہر میں نافذ ہوتا ہے۔اور مقدمے کے فریقین بالعموم اپن طور پر خوب جان رہے ہوتے ہیں۔کہ حق کس کا ہے اور باطل پر کون ہے۔؟ الا ما شاء اللہ ۔تو جہاں معاملہ صرف ہو وہاں ظالم کو اپنے بھائی کا حق مارتے ہوئے سمجھ لینا چاہیے کہ وہ قاضی کے فیصلے کے باوجود آگ کاٹکڑا لے رہا ہے۔2۔فیصلہ کرنے میں قاضی سے خظا کرسرزد ہوجانا اس کے لئے معاف ہے۔3۔رسول اللہ ﷺ کے اس بیان سے واضح ہواکہ وہ غیب نہ جانتے تھے۔4۔یہ حدیث رسول اللہ ﷺ کے بشر ہونے پر واضح دلالت کرتی ہے۔5۔رسول اللہ ﷺ بعض فیصلے اپنے اجتہاد سے کرتے تھے۔ امت کے قضی ہمیشہ اجتہاد ہی سے فیصلہ کر سکتے ہیں۔ اور ان کے سامنے رسول اللہ ﷺ کااجتہاد اور طریقہ اجتہاد بہترین نمونہ اورحجت ہے ۔واللہ اعلم۔