Book - حدیث 3544

کِتَابُ الْإِجَارَةِ بَابٌ فِي الرَّجُلِ يُفَضِّلُ بَعْضَ وَلَدِهِ فِي النُّحْلِ صحیح حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ حَاجِبِ بْنِ الْمُفَضَّلِ بْنِ الْمُهَلَّبِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اعْدِلُوا بَيْنَ أَوْلَادِكُمْ اعْدِلُوا بَيْنَ أَبْنَائِكُمْ

ترجمہ Book - حدیث 3544

کتاب: اجارے کے احکام و مسائل باب: باپ کا عطیہ دینے میں اپنے کسی بچے کو ترجیح دینا ؟ سیدنا نعمان بن بشیر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” اپنی اولاد میں عدل کرو ، اپنی اولاد میں عدل کرو ۔“
تشریح : فائدہ۔جب کوئی شخص اپنی اولاد کو عطیہ دینا چاہے تو لازم ہے کہ لڑکے لڑکی خدمت گزار غیر خدمت گزار چھوٹے بڑے عالم جاہل اورعاقل غبی وغیرہ میں کوئی تمیز نہ کرے۔کسی کو محروم نہ رکھے۔اور جس طرح ممکن ہو سب کو برابر دے۔البتہ اگر عطیے یا ہدیے کی بجائے کسی شخص کی سرے سے نیت ہی یہ ہو کہ اس کے مرنے کےبعد جو کچھ ترکہ یا ورثہ ہوگا اسے موت سے پہلے وارثوں میں تقسیم کردیا جائے۔تو اس صورت میں ورثے کے بارے میں اللہ کے احکام کی پابندی لازمی ہوگی۔پابندی نہ کی گئی تو زندگی میں تقسیم اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حصوں میں کمی بیشی کرنے کاایک حیلہ قرارپائے گی جو کسی مسلمان کے لئے مناسب نہیں۔عطا ۔شریح۔اسحاق۔ اور محمد بن حسین۔جیسے فقہاء زندگی میں دیے جانے والے عام عطیے کو بھی وراثت کے حصوں کے مطابق تقسیم کرنا ضروری خیال کرتے ہیں۔(المغمنی لاابن قدامہ کتاب الھبۃ والعطیۃ بیان من یقبض الھبۃ للصبی۔۔۔)لیکن ان کی رائے سے اتفاق کرنا اس لئے ممکن نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے۔ عطیہ دیتے ہوئے اپنی اولاد میں مساات رکھو۔اگر میں نے کسی کو ترجیح دینی ہوتی تو عورتوں کوترجیح دیتا (فتح الباری۔کتاب الہبہ وفضلھا باب الشھاد فی الہبۃ) کسی بچے کو عاق کہہ کرمحروم کرنا بھی جائز نہیں ماں خدانخواستہ کوئی دائرہ اسلام سے نکل جائے تو نہ وہ وارث بن سکتا ہے۔نہ اس کا ورثہ مسلمان لے سکتا ہے۔ فائدہ۔جب کوئی شخص اپنی اولاد کو عطیہ دینا چاہے تو لازم ہے کہ لڑکے لڑکی خدمت گزار غیر خدمت گزار چھوٹے بڑے عالم جاہل اورعاقل غبی وغیرہ میں کوئی تمیز نہ کرے۔کسی کو محروم نہ رکھے۔اور جس طرح ممکن ہو سب کو برابر دے۔البتہ اگر عطیے یا ہدیے کی بجائے کسی شخص کی سرے سے نیت ہی یہ ہو کہ اس کے مرنے کےبعد جو کچھ ترکہ یا ورثہ ہوگا اسے موت سے پہلے وارثوں میں تقسیم کردیا جائے۔تو اس صورت میں ورثے کے بارے میں اللہ کے احکام کی پابندی لازمی ہوگی۔پابندی نہ کی گئی تو زندگی میں تقسیم اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حصوں میں کمی بیشی کرنے کاایک حیلہ قرارپائے گی جو کسی مسلمان کے لئے مناسب نہیں۔عطا ۔شریح۔اسحاق۔ اور محمد بن حسین۔جیسے فقہاء زندگی میں دیے جانے والے عام عطیے کو بھی وراثت کے حصوں کے مطابق تقسیم کرنا ضروری خیال کرتے ہیں۔(المغمنی لاابن قدامہ کتاب الھبۃ والعطیۃ بیان من یقبض الھبۃ للصبی۔۔۔)لیکن ان کی رائے سے اتفاق کرنا اس لئے ممکن نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے۔ عطیہ دیتے ہوئے اپنی اولاد میں مساات رکھو۔اگر میں نے کسی کو ترجیح دینی ہوتی تو عورتوں کوترجیح دیتا (فتح الباری۔کتاب الہبہ وفضلھا باب الشھاد فی الہبۃ) کسی بچے کو عاق کہہ کرمحروم کرنا بھی جائز نہیں ماں خدانخواستہ کوئی دائرہ اسلام سے نکل جائے تو نہ وہ وارث بن سکتا ہے۔نہ اس کا ورثہ مسلمان لے سکتا ہے۔