Book - حدیث 3542

کِتَابُ الْإِجَارَةِ بَابٌ فِي الرَّجُلِ يُفَضِّلُ بَعْضَ وَلَدِهِ فِي النُّحْلِ صحيح إلا زيادة مجالد إن لهم حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا سَيَّارٌ وَأَخْبَرَنَا مُغِيرَةُ وَأَخْبَرَنَا دَاوُدُ عَنْ الشَّعْبِيِّ وَأَخْبَرَنَا مُجَالِدٌ وَإِسْمَعِيلُ بْنُ سَالِمٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ قَالَ أَنْحَلَنِي أَبِي نُحْلًا قَالَ إِسْمَعِيلُ بْنُ سَالِمٍ مِنْ بَيْنِ الْقَوْمِ نِحْلَةً غُلَامًا لَهُ قَالَ فَقَالَتْ لَهُ أُمِّي عَمْرَةُ بِنْتُ رَوَاحَةَ ائْتِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَشْهِدْهُ فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَشْهَدَهُ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ لَهُ إِنِّي نَحَلْتُ ابْنِي النُّعْمَانَ نُحْلًا وَإِنَّ عَمْرَةَ سَأَلَتْنِي أَنْ أُشْهِدَكَ عَلَى ذَلِكَ قَالَ فَقَالَ أَلَكَ وَلَدٌ سِوَاهُ قَالَ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ فَكُلَّهُمْ أَعْطَيْتَ مِثْلَ مَا أَعْطَيْتَ النُّعْمَانَ قَالَ لَا قَالَ فَقَالَ بَعْضُ هَؤُلَاءِ الْمُحَدِّثِينَ هَذَا جَوْرٌ وَقَالَ بَعْضُهُمْ هَذَا تَلْجِئَةٌ فَأَشْهِدْ عَلَى هَذَا غَيْرِي قَالَ مُغِيرَةُ فِي حَدِيثِهِ أَلَيْسَ يَسُرُّكَ أَنْ يَكُونُوا لَكَ فِي الْبِرِّ وَاللُّطْفِ سَوَاءٌ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَأَشْهِدْ عَلَى هَذَا غَيْرِي وَذَكَرَ مُجَالِدٌ فِي حَدِيثِهِ إِنَّ لَهُمْ عَلَيْكَ مِنْ الْحَقِّ أَنْ تَعْدِلَ بَيْنَهُمْ كَمَا أَنَّ لَكَ عَلَيْهِمْ مِنْ الْحَقِّ أَنْ يَبَرُّوكَ قَالَ أَبُو دَاوُد فِي حَدِيثِ الزُّهْرِيِّ قَالَ بَعْضُهُمْ أَكُلَّ بَنِيكَ وَقَالَ بَعْضُهُمْ وَلَدِكَ وَقَالَ ابْنُ أَبِي خَالِدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ فِيهِ أَلَكَ بَنُونَ سِوَاهُ وَقَالَ أَبُو الضُّحَى عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ أَلَكَ وَلَدٌ غَيْرُهُ

ترجمہ Book - حدیث 3542

کتاب: اجارے کے احکام و مسائل باب: باپ کا عطیہ دینے میں اپنے کسی بچے کو ترجیح دینا ؟ سیدنا نعمان بن بشیر ؓ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے ایک عطیہ دیا ۔ اسماعیل بن سالم نے یوں کہا : دوسرے بچوں کے مقابلے میں مجھے اپنا ایک غلام عطیہ کیا ۔ پس میری والدہ عمرہ بنت رواحہ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس جاؤ اور انہیں اس عطیے پر گواہ بنا لو ۔ چنانچہ وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آیا اور آپ ﷺ کو گواہ بنانے کے لیے یہ بات بتائی اور کہا کہ میں نے اپنے بیٹے نعمان کو عطیہ دیا ہے اور ( میری اہلیہ ) عمرہ نے مجھ سے کہا ہے کہ میں آپ ﷺ کو اس پر گواہ بنا لوں ۔ رسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا ” کیا تیرے اس کے علاوہ اور بھی بچے ہیں ؟ “ کہا کہ ہاں ۔ فرمایا ” تو کیا تو نے ان سب کو اس طرح کا عطیہ دیا ہے جو نعمان کو دیا ہے ؟ “ کہا : نہیں ۔ یہاں بعض محدثین کے لفظ ہیں : ” یہ ظلم ہے ۔ “ اور بعض نے کہا : ” یہ مجبوری اور لاچاری کا معاملہ ہے ۔ ( خوشی کا نہیں ورنہ تو سبھی کو دیتا ) اس پر میرے علاوہ کسی اور کو گواہ بنا لے ۔ “ مغیرہ کی روایت میں ہے ۔ ” کیا تجھے پسند نہیں کہ تیرے ساتھ خدمت اور احسان کرنے میں سب بچے برابر ہوں ؟ “ کہا : ہاں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ” تو اس پر میرے علاوہ کسی اور کو گواہ بنا لے ۔ “ مجالد کے الفاظ ہیں ” ان کا تجھ پر یہ حق ہے کہ تو ان سب میں عدل کرے جیسے کہ ان سب پر لازم ہے کہ تیری خدمت کریں ۔ “ امام ابوداؤد ؓ نے فرمایا بعض راویوں نے «أكل بنيك» کہا : اور بعض نے «ولدك» کہا ۔ ابن ابی خالد نے شعبی سے روایت کرتے ہوئے کہا : «ألك بنون سواه» ” کیا تیرے اس کے علاوہ بھی بیٹے ہیں ؟ “ اور ابوالضحیٰ نے سیدنا نعمان بن بشیر ؓ سے روایت کیا «ألك ولد غيره» ۔
تشریح : فوائد ومسائل۔1۔والدین پرواجب ہے عطیہ وہدیہ کے سلسلے میں سب اولاد لڑکے اور لڑکیوں میں بلا امتیاز برابری رکھیں۔اور اگر کوئی بچہ زیادہ خدمت کرتا ہو۔تو وہ اس کی اپنی سعادت ہے۔جس کا اجر اسے اللہ کے ہاں ملے گا۔علاوہ ازیں اسے ماں باپ کی شفقت اوردعایئں بھی زیادہ حاصل ہوں گی۔لیکن والدین مالی لہاظ سے اسے دوسروں پرترجیح نہیں دے سکتے۔اگر ایسا کریں گے تو یہ ظلم ہوگا۔2۔اولاد پرواجب ہے کہ اپنے والدین کی خدمت اور احسان مندی کو سعادت جانیں اور ا س طرح مت سوچیں کہ فلاں تو کرتا نہیں۔بلکہ یوں سوچیں کہ یہ خدمت میں نے ہی کرنی ہے۔3۔ظلم کاگواہ بننا بھی ناجائز اور گناہ میں تعاون ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔(وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ)المائدہ۔2) یعنی گناہ اورزیادتی پر ایک دوسرے پرتعاون مت کرو 4۔داعی اور مربی پر لازم ہے کہ حق سمجھانے میں مخاطب کو فکری اور نظری اعتبار سے قائل اور مطمین کرے۔5۔اس روایت میں مجالد کے الفاظ کا اضافہ صحیح نہیں ہے۔(علامہ البانی) فوائد ومسائل۔1۔والدین پرواجب ہے عطیہ وہدیہ کے سلسلے میں سب اولاد لڑکے اور لڑکیوں میں بلا امتیاز برابری رکھیں۔اور اگر کوئی بچہ زیادہ خدمت کرتا ہو۔تو وہ اس کی اپنی سعادت ہے۔جس کا اجر اسے اللہ کے ہاں ملے گا۔علاوہ ازیں اسے ماں باپ کی شفقت اوردعایئں بھی زیادہ حاصل ہوں گی۔لیکن والدین مالی لہاظ سے اسے دوسروں پرترجیح نہیں دے سکتے۔اگر ایسا کریں گے تو یہ ظلم ہوگا۔2۔اولاد پرواجب ہے کہ اپنے والدین کی خدمت اور احسان مندی کو سعادت جانیں اور ا س طرح مت سوچیں کہ فلاں تو کرتا نہیں۔بلکہ یوں سوچیں کہ یہ خدمت میں نے ہی کرنی ہے۔3۔ظلم کاگواہ بننا بھی ناجائز اور گناہ میں تعاون ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔(وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ)المائدہ۔2) یعنی گناہ اورزیادتی پر ایک دوسرے پرتعاون مت کرو 4۔داعی اور مربی پر لازم ہے کہ حق سمجھانے میں مخاطب کو فکری اور نظری اعتبار سے قائل اور مطمین کرے۔5۔اس روایت میں مجالد کے الفاظ کا اضافہ صحیح نہیں ہے۔(علامہ البانی)