Book - حدیث 3530

کِتَابُ الْإِجَارَةِ بَابُ فِي الرَّجُلِ يَأْكُلُ مِنْ مَالِ وَلَدِهِ حسن صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمِنْهَالِ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنَا حَبِيبٌ الْمُعَلِّمُ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ لِي مَالًا وَوَلَدًا وَإِنَّ وَالِدِي يَحْتَاجُ مَالِي قَالَ أَنْتَ وَمَالُكَ لِوَالِدِكَ إِنَّ أَوْلَادَكُمْ مِنْ أَطْيَبِ كَسْبِكُمْ فَكُلُوا مِنْ كَسْبِ أَوْلَادِكُمْ

ترجمہ Book - حدیث 3530

کتاب: اجارے کے احکام و مسائل باب: باپ اپنے بیٹے کی کمائی کھا سکتا ہے جناب عمرو بن شعیب اپنے والد سے ، وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آیا اور کہا : اے اللہ کے رسول ! میرے پاس مال ہے اور اولاد بھی ، اور میرا والد میرے مال کا ضرورت مند رہتا ( یعنی لیتا رہتا ) ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ” تم اور تمہارا مال تمہارے والد کا ہے ۔ بیشک تمہاری اولادیں تمہاری بہترین کمائی ہیں ، چنانچہ تم اپنی اولادوں کی کمائی سے کھا سکتے ہو ۔ “
تشریح : فائدہ۔اسلامی تعلیمات خاندانی اکائی کو از حد مظبوط بنانے کی داعی ہیں۔اولاد پر واجب ہے کہ اپنے والدین کی کفالت کریں۔اوراسے اپنی سعادت جانیں۔اوروالدین کو بھی بغیر کسی اجازت کے اپنی اولاد کی کمائی سے اپنی لازمی ضروریات پوری کرنے کا حق حاصل ہے۔ مگر ظاہر ہے کہ اس معاملے میں کسی جانب سے بھی افراط وتفریط نہیں ہونی چاہیے۔اس حدیث سے یہ مفہوم کشید کرنا بالکل جائز نہیں۔ کےبیٹے کا مال کلی طور پرباپ ہی کا ہے۔بلکہ اس حد تک جائز ہے کہ اپنی لازمی ضروریات لے لے۔اللہ کی شریعت میں ان دونوں کی ملکیت اورتصرف علحیدہ علیحدہ ہے۔اسی بنا پر ان میں وراثت چلتی ہے۔اگرملکیت اورتصرف میں فرق نہ ہو تووراثت کے کوئی معنی نہ ہوں گے۔حدیث کا مقصدبنیادی لازمی ضروریات کا حاصل کرنا ہے۔ نہ کے اولاد کی کمائی کو بے دردی سے خرچ کرکے اسے اجاڑنا۔واللہ اعلم۔نیز یہ کمائی اس صورت میں حلال ہوگی جب اولاد کی کمائی کا مصدر حلال اورطیب ہوگا۔ فائدہ۔اسلامی تعلیمات خاندانی اکائی کو از حد مظبوط بنانے کی داعی ہیں۔اولاد پر واجب ہے کہ اپنے والدین کی کفالت کریں۔اوراسے اپنی سعادت جانیں۔اوروالدین کو بھی بغیر کسی اجازت کے اپنی اولاد کی کمائی سے اپنی لازمی ضروریات پوری کرنے کا حق حاصل ہے۔ مگر ظاہر ہے کہ اس معاملے میں کسی جانب سے بھی افراط وتفریط نہیں ہونی چاہیے۔اس حدیث سے یہ مفہوم کشید کرنا بالکل جائز نہیں۔ کےبیٹے کا مال کلی طور پرباپ ہی کا ہے۔بلکہ اس حد تک جائز ہے کہ اپنی لازمی ضروریات لے لے۔اللہ کی شریعت میں ان دونوں کی ملکیت اورتصرف علحیدہ علیحدہ ہے۔اسی بنا پر ان میں وراثت چلتی ہے۔اگرملکیت اورتصرف میں فرق نہ ہو تووراثت کے کوئی معنی نہ ہوں گے۔حدیث کا مقصدبنیادی لازمی ضروریات کا حاصل کرنا ہے۔ نہ کے اولاد کی کمائی کو بے دردی سے خرچ کرکے اسے اجاڑنا۔واللہ اعلم۔نیز یہ کمائی اس صورت میں حلال ہوگی جب اولاد کی کمائی کا مصدر حلال اورطیب ہوگا۔