Book - حدیث 3525

کِتَابُ الْإِجَارَةِ بَابٌ فِيمَنْ أَحْيَا حَسِيرًا حسن حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ حَمَّادٍ يَعْنِي ابْنَ زَيْدٍ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنِ الشَّعْبِيِّ -يَرْفَعُ الْحَدِيثَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-، أَنَّهُ قَالَ: >مَنْ تَرَكَ دَابَّةً بِمَهْلَكٍ، فَأَحْيَاهَا رَجُلٌ, فَهِيَ لِمَنْ أَحْيَاهَا<.

ترجمہ Book - حدیث 3525

کتاب: اجارے کے احکام و مسائل باب: جس نے کسی لاچار ضعیف متروک جانور کو صحت مند بنا لیا ہو تو؟ جناب شعبی ؓ نبی کریم ﷺ سے مرفوعاً بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا ” جس نے کسی تباہ حال جانور کو چھوڑ دیا ہو اور کوئی دوسرا اسے زندہ کر لے ( یعنی علاج معالجہ اور خدمت سے ) تو یہ اس کا ہوا جس نے اسے زندہ کیا ۔ “
تشریح : فائدہ۔یہ الگ باب باندھ کر اس مسئلے کو صرف امام ابودائود نے نمایاں کیاہے۔اس کے تحت مذکورہ احادیث بھی امام ابودائود ہی کی سند سے دوسرے محدثین تک پہنچی ہیں۔ان احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ اگرکوئی جانور بالکل موت کے منہ میں پہنچ چکاہو۔ اس کی زندگی کی امید ختم ہوچکی ہو۔اور مالک نے اس سے ہاتھ اٹھالیا ہو۔تو جو کوئی اسے علاج اور خدمت کے ذریعے سے تندرست کرلے وہ اسی کا ہوجائےگا۔بنیادی اصول یہ ہواکہ کسی جاندار کی زندگی ختم ہوتی دیکھائی دے اور پہلے مالک نے اسے چھوڑ دیا ہو۔تو جواس کو موت سے بچا کر اس کی زندگی کا تسلسل قائم کرلے گا۔وہ آئندہ کےلئے اسی کو استعمال کرے گا۔ اعضاء کی پیوند کاری کا مسئلہ اپنے اعضاء کے بارے میں لوگ وصیت کرجاتے ہیں۔کے موت کے بعد دوسرے ضرورت مندوں کو دے دیے جایئں اس پر بحث وتمحیص جاری ہے۔اکثر علماء اس جواز کے قائل ہیں۔ لیکن جواز کا یہ فتویٰ ضرورت اور مصلحت انسانی کی بنیاد پردیا جاتا ہے۔(جدید فقہی مسائل مولانا خالد یوسف رحمانی۔210تا 2149 ) اس کے جواز کے لئے باقاعدہ قیاس صحیح کی کوئی صورت تو اب تک سامنے نہیں آئی۔صرف یہی کہاجاتا ہے کہ آنکھیں اورگردے وغیرہ انسان کے مرنے کے بعد یقینی طور پر ختم ہوکر مٹی میں مل جانے ہوتے ہیں۔انکو اگر اس طرح محفوظ کرلیا جائے۔کہ ان سے دوسرے انسان فائدہ اٹھالیں تواچھی بات رہی ہے۔جو اہل علم اس کے جواز کے مخالف ہیں ان کی طرف سے یہ نکات اٹھائے جاتے ہیں۔ 1۔مرنے والا کس طرح اپنا عضو دوسرے کے حوالے کرنے کی وصیت کرسکتا ہے۔جب کہ وہ خود اس عضو کامالک نہیں ہوتا۔انسان اپنی جان کی بھی مالک نہیں اس لئے وہ ا پنی جان نہیں لے سکتا۔انسان اپنی صوابدید پر اپنے اعضاء کو بھی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔اس سلسلے میں صحیح مسلم کی یہ روایت پیش کیجاتی ہے۔کہ حضرت طفیل بن عمرودوسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی رسول اللہ ﷺ کو پیش کش کی تھی۔کہ مکہ سے ہجرت کر کے بنودوس کو محفوظ قلعے میں تشریف لے آیئں لیکن یہ سعادت اللہ نے انصارکےلئے مقدر فرمائی تھی۔اس لئے آپ ﷺنے پیش کش قبول نہ کی۔اور ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے آئے۔آپ ﷺ کی ہجرت کے بعدحضرت طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اپنی قوم کے ایک ساتھی کے ہمراہ ہجرت کرکے مدینہ آگئے۔یہ ساتھی شدید بیماری میں مبتلاہوگئے۔اورتکلیف نہ برداشت کرسکے تواپنا نیز اٹھا کراپنے دونوںہاتھوں کی رگیں کاٹ لیں دونوں ہاتھوں سے خون ابل پڑااور اسی حالت میں ان کی موت واقع ہوگئی۔حضرت طفیل بن عمر و دوسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں خواب میں اچھی حالت میں دیکھاالبتہ انھوں نے اپنے ہاتھ ڈھانپ رکھے تھےحضرت طفیل عمرورضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا کہ تمہارے رب نے تمہارے ساتھ کیا سلو ک کیا انہوں نے جواب دیا ۔اپنے نبی ﷺکی طرف میری ہجرت کی وجہ سے مجھے بخش دیا۔حضرت طفیل بن عمرورضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پھرپوچھا کہ مجھے نظرآرہا ہے کہ آپ نے اپنے دونوں ہاتھ ڈھانپ ر کھے ہیں۔انہوں نے جواب دیا کہ مجھ سے کہہ دیاگیا کہ جو تو نے خود بگاڑا ہے اسے ہم ٹھیک نہیں کریں گےحضرت طفیل بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ واقعہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے گوش گزارکیا۔توآپﷺ نے د عا فرمائی۔اے میرے اللہ ! اس کے دونوں ہاتھوں کو بھی بخش دے۔(صحیح مسلم۔کتاب الایمان باب الدلیل علی ان قاتل نفسہ لا یکفر حدیث 116۔ بظاہر یہ کافی ووقیع اعتراض ہے۔لیکن جہاں تک ملکیت کا تعلق ہے۔ یہ ثابت شدہ ہے کہ کسی انسان کاکوئی عضو ضائع کردی جائے۔تو اسی عضو کی دیت اسی انسان کودی جاتی ہے۔خون بہا بھی اس کے اپنے چھوڑے ہوئے ترکے کاحصہ سمجھا جاتاہے۔اس لئے اپنے اعضاء کی ملکیت بھی اسطرح انسان کو ملی ہوتی ہے۔ جس طرح اللہ کی دی ہوئی دوسری نعمتوں کی ملکیت اسے تفویض کردی گئی ہوتی ہے۔حضرت طفیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےساتھی صحابی کاکا یہ عمل نہ تھا کہ انہوں نے موت کے منہ میں جاتے ہوئے اپنے کسی عضو کوبچالیا ہو۔بلکہ اس کے بالکل برعکس تھا کہ زندہ ہاتھوں کی رگیں کاٹ کر ہاتھوں کو اور خود کو موت کے سپردکردیا۔اس لئے ان کاعمل غلط تھا۔ کسی شخص کاوہ عمل جواس کے برعکس ہے۔ یعنی موت آجانے کے بعد اپنے اعضاء کوبچاکر ان کی زندگی برقراررکھنے کی اجازت دے۔تو امید ہے کہ اس کا یہ عمل ناپسندیدہ نہیں بلکہ پسندیدہ ٹھرے گا۔ 2۔اعضاء کی وصیت کو ناجائز قراردینے والوں کا دوسرا نکتہ اس حدیث کے حوالے سے ہے کہ كسر عظم الميت ككسر عظم الحي في الاثم (سنن ابن ماجہ حدیث 1617)مردے کی ہڈی توڑناگناہ میں زندہ کی ہڈی توڑنے کی طرح ہے۔اس پر تمام اعضاء کو قیاس کیاجائےگا۔اور جس طرح زندہ کا عضو نکالناگنا ہ ہے۔ اسی طرح مردے کاعضو نکالنا بھی گناہ ہوگا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مردہ انسان کی ہڈی توڑنے یا مردے کی آنکھ ناک ۔کان ۔کاٹ کر لاش کا مسخ کرتا اتنا ہی بڑا گناہ ہے جتنازندہ کے ساتھ ایسا سلوک کرنا گنا ہ ہے۔ یہ ایک مجرمانہ عمل ہے۔اس میں (زندہ یا مردہ حالت میں ) دوسرے کی اہانت اور ا پنے احساس کے مطابق اس کواذیت دینے کی مکروہ خواہش کارفرما ہے۔جس پروہ یقینا سخت عذاب کامستحق ہے۔اس کے برعکس اگرزندگی میں کسی کاکوئی عضو مردہ ہوجائے۔جس طر ح گنگرین (ماس خورہ وغیرہ کی بیماری) لگنے سے ہاتھ پائوں مردہ ہوجاتے ہیں۔تو مردہ او رزندہ کوالگ کر کے مردہ حصے کودفن کرنا اور جسم کے باقی حصے کوبچاناضروری ہے۔کیونکہ اس عمل کا مقصوداہانت یاازیت کے برعکس زندہ حصے کی حفاظت ہے۔تو ایسا قطع عضومطلوبہ ہوگا۔اور اس کوشش پراجر وثوا ب ملے گا۔مرنے والے کے ایسے اعضاء کو الگ کرلینا جن کو زندہ رکھاجاسکتا ہے۔اسی پسندیدہ اورثواب کے عمل سے مشابہ ہے۔یہ اہانت کے مقصد سے عضو کاٹنے والے کے عمل سے مشابہ نہیں بلکہ اس سے یکسر مختلف عمل ہے۔ 3۔قصاص میں مجرم کاعضو کاٹ دینا عین تقاضائے اسلام ہے۔ کیونکہ یہ ایذا اہانت کےلئے نہیں بلکہ جس طرح اللہ کافرمان ہے۔(وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌوَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ) قصاص(بدلہ لینے) میں تمہارے لئے زندگی ہے۔یہ عمل مجموعی حیثیت سے حفاظت حیات کےلئے ہے۔اسی لئے مطلوب ہے۔اس سے ثابت ہوا کہ محض عضو کا کاٹنا جرم نہیں بلکہ غلط مقصد کےلئے کاٹنا جرم اوراچھے مقصد کے لئے کاٹنا پسندیدہ ہے۔انسان کے جسم کوکٹ لگانا جرم ہے۔لیکن جس طرح رسول اللہ ﷺ نے فرمایا! (الشفاء في ثلاث......وشرطة محجم.........الخ) (صحیح البخاری کتاب الطب باب الشفاء فی ثلاث حدیث 5680)شفاء تین چیزوں میں ہے۔(جراح کے نشتر میں۔۔۔۔۔۔) اگر علاج کےلئے جسم کو کاٹا جائے تو یہ جرم نہیں اچھاعمل ہوگا۔حفاظت حیات۔شفاء وغیرہ کے اعلیٰ مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے مرنے والے کی وصیت کے مطابق مرنے کے بعد مردہ جسم سے اعضاء کو نکال کر انہیں زندہرکھنے کے عمل کوجرم کے طور پر عضو نکالنے پرقیاس نہیں کیاجاسکتا۔ بلکہ اس عمل یعنی مردہ حصے کو الگ کرکے بچ سکنے والے اعضاء کو بچانے پر قیاس کیاجائے گا۔اعضاء کی پیوندکاری کی ایک صورت یہ ہے۔کہ زندہ انسان اپنا ایک گردہ دوسرے کودے دیتا ہے۔اور ایک گردے کے ساتھ نارمل زندگی گزارتا ہے۔اگرفیصلہ نیت کوسامنے رکھ کرکیا جائے۔تو یہ خوداذیتی یا خود کو نقصان پہنچانے والا عمل نہیں۔ بلکہ اعلیٰ ترین ایثارسے کام لےکر ایک انسان کی زندگی بچانے کا انتہائی قابلاحترام احترام عمل ہے۔ اور اللہ کے فرمان (وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا)جس نے ایک انسان کی زندگی بچائی اس نے گویا ساری انسانیت کی زندگی بچائی کی رو سے ان شاء اللہ قابل تحسین ہی ہوگا۔ فائدہ۔یہ الگ باب باندھ کر اس مسئلے کو صرف امام ابودائود نے نمایاں کیاہے۔اس کے تحت مذکورہ احادیث بھی امام ابودائود ہی کی سند سے دوسرے محدثین تک پہنچی ہیں۔ان احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ اگرکوئی جانور بالکل موت کے منہ میں پہنچ چکاہو۔ اس کی زندگی کی امید ختم ہوچکی ہو۔اور مالک نے اس سے ہاتھ اٹھالیا ہو۔تو جو کوئی اسے علاج اور خدمت کے ذریعے سے تندرست کرلے وہ اسی کا ہوجائےگا۔بنیادی اصول یہ ہواکہ کسی جاندار کی زندگی ختم ہوتی دیکھائی دے اور پہلے مالک نے اسے چھوڑ دیا ہو۔تو جواس کو موت سے بچا کر اس کی زندگی کا تسلسل قائم کرلے گا۔وہ آئندہ کےلئے اسی کو استعمال کرے گا۔ اعضاء کی پیوند کاری کا مسئلہ اپنے اعضاء کے بارے میں لوگ وصیت کرجاتے ہیں۔کے موت کے بعد دوسرے ضرورت مندوں کو دے دیے جایئں اس پر بحث وتمحیص جاری ہے۔اکثر علماء اس جواز کے قائل ہیں۔ لیکن جواز کا یہ فتویٰ ضرورت اور مصلحت انسانی کی بنیاد پردیا جاتا ہے۔(جدید فقہی مسائل مولانا خالد یوسف رحمانی۔210تا 2149 ) اس کے جواز کے لئے باقاعدہ قیاس صحیح کی کوئی صورت تو اب تک سامنے نہیں آئی۔صرف یہی کہاجاتا ہے کہ آنکھیں اورگردے وغیرہ انسان کے مرنے کے بعد یقینی طور پر ختم ہوکر مٹی میں مل جانے ہوتے ہیں۔انکو اگر اس طرح محفوظ کرلیا جائے۔کہ ان سے دوسرے انسان فائدہ اٹھالیں تواچھی بات رہی ہے۔جو اہل علم اس کے جواز کے مخالف ہیں ان کی طرف سے یہ نکات اٹھائے جاتے ہیں۔ 1۔مرنے والا کس طرح اپنا عضو دوسرے کے حوالے کرنے کی وصیت کرسکتا ہے۔جب کہ وہ خود اس عضو کامالک نہیں ہوتا۔انسان اپنی جان کی بھی مالک نہیں اس لئے وہ ا پنی جان نہیں لے سکتا۔انسان اپنی صوابدید پر اپنے اعضاء کو بھی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔اس سلسلے میں صحیح مسلم کی یہ روایت پیش کیجاتی ہے۔کہ حضرت طفیل بن عمرودوسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی رسول اللہ ﷺ کو پیش کش کی تھی۔کہ مکہ سے ہجرت کر کے بنودوس کو محفوظ قلعے میں تشریف لے آیئں لیکن یہ سعادت اللہ نے انصارکےلئے مقدر فرمائی تھی۔اس لئے آپ ﷺنے پیش کش قبول نہ کی۔اور ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے آئے۔آپ ﷺ کی ہجرت کے بعدحضرت طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اپنی قوم کے ایک ساتھی کے ہمراہ ہجرت کرکے مدینہ آگئے۔یہ ساتھی شدید بیماری میں مبتلاہوگئے۔اورتکلیف نہ برداشت کرسکے تواپنا نیز اٹھا کراپنے دونوںہاتھوں کی رگیں کاٹ لیں دونوں ہاتھوں سے خون ابل پڑااور اسی حالت میں ان کی موت واقع ہوگئی۔حضرت طفیل بن عمر و دوسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں خواب میں اچھی حالت میں دیکھاالبتہ انھوں نے اپنے ہاتھ ڈھانپ رکھے تھےحضرت طفیل عمرورضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا کہ تمہارے رب نے تمہارے ساتھ کیا سلو ک کیا انہوں نے جواب دیا ۔اپنے نبی ﷺکی طرف میری ہجرت کی وجہ سے مجھے بخش دیا۔حضرت طفیل بن عمرورضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پھرپوچھا کہ مجھے نظرآرہا ہے کہ آپ نے اپنے دونوں ہاتھ ڈھانپ ر کھے ہیں۔انہوں نے جواب دیا کہ مجھ سے کہہ دیاگیا کہ جو تو نے خود بگاڑا ہے اسے ہم ٹھیک نہیں کریں گےحضرت طفیل بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ واقعہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے گوش گزارکیا۔توآپﷺ نے د عا فرمائی۔اے میرے اللہ ! اس کے دونوں ہاتھوں کو بھی بخش دے۔(صحیح مسلم۔کتاب الایمان باب الدلیل علی ان قاتل نفسہ لا یکفر حدیث 116۔ بظاہر یہ کافی ووقیع اعتراض ہے۔لیکن جہاں تک ملکیت کا تعلق ہے۔ یہ ثابت شدہ ہے کہ کسی انسان کاکوئی عضو ضائع کردی جائے۔تو اسی عضو کی دیت اسی انسان کودی جاتی ہے۔خون بہا بھی اس کے اپنے چھوڑے ہوئے ترکے کاحصہ سمجھا جاتاہے۔اس لئے اپنے اعضاء کی ملکیت بھی اسطرح انسان کو ملی ہوتی ہے۔ جس طرح اللہ کی دی ہوئی دوسری نعمتوں کی ملکیت اسے تفویض کردی گئی ہوتی ہے۔حضرت طفیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےساتھی صحابی کاکا یہ عمل نہ تھا کہ انہوں نے موت کے منہ میں جاتے ہوئے اپنے کسی عضو کوبچالیا ہو۔بلکہ اس کے بالکل برعکس تھا کہ زندہ ہاتھوں کی رگیں کاٹ کر ہاتھوں کو اور خود کو موت کے سپردکردیا۔اس لئے ان کاعمل غلط تھا۔ کسی شخص کاوہ عمل جواس کے برعکس ہے۔ یعنی موت آجانے کے بعد اپنے اعضاء کوبچاکر ان کی زندگی برقراررکھنے کی اجازت دے۔تو امید ہے کہ اس کا یہ عمل ناپسندیدہ نہیں بلکہ پسندیدہ ٹھرے گا۔ 2۔اعضاء کی وصیت کو ناجائز قراردینے والوں کا دوسرا نکتہ اس حدیث کے حوالے سے ہے کہ كسر عظم الميت ككسر عظم الحي في الاثم (سنن ابن ماجہ حدیث 1617)مردے کی ہڈی توڑناگناہ میں زندہ کی ہڈی توڑنے کی طرح ہے۔اس پر تمام اعضاء کو قیاس کیاجائےگا۔اور جس طرح زندہ کا عضو نکالناگنا ہ ہے۔ اسی طرح مردے کاعضو نکالنا بھی گناہ ہوگا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مردہ انسان کی ہڈی توڑنے یا مردے کی آنکھ ناک ۔کان ۔کاٹ کر لاش کا مسخ کرتا اتنا ہی بڑا گناہ ہے جتنازندہ کے ساتھ ایسا سلوک کرنا گنا ہ ہے۔ یہ ایک مجرمانہ عمل ہے۔اس میں (زندہ یا مردہ حالت میں ) دوسرے کی اہانت اور ا پنے احساس کے مطابق اس کواذیت دینے کی مکروہ خواہش کارفرما ہے۔جس پروہ یقینا سخت عذاب کامستحق ہے۔اس کے برعکس اگرزندگی میں کسی کاکوئی عضو مردہ ہوجائے۔جس طر ح گنگرین (ماس خورہ وغیرہ کی بیماری) لگنے سے ہاتھ پائوں مردہ ہوجاتے ہیں۔تو مردہ او رزندہ کوالگ کر کے مردہ حصے کودفن کرنا اور جسم کے باقی حصے کوبچاناضروری ہے۔کیونکہ اس عمل کا مقصوداہانت یاازیت کے برعکس زندہ حصے کی حفاظت ہے۔تو ایسا قطع عضومطلوبہ ہوگا۔اور اس کوشش پراجر وثوا ب ملے گا۔مرنے والے کے ایسے اعضاء کو الگ کرلینا جن کو زندہ رکھاجاسکتا ہے۔اسی پسندیدہ اورثواب کے عمل سے مشابہ ہے۔یہ اہانت کے مقصد سے عضو کاٹنے والے کے عمل سے مشابہ نہیں بلکہ اس سے یکسر مختلف عمل ہے۔ 3۔قصاص میں مجرم کاعضو کاٹ دینا عین تقاضائے اسلام ہے۔ کیونکہ یہ ایذا اہانت کےلئے نہیں بلکہ جس طرح اللہ کافرمان ہے۔(وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌوَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ) قصاص(بدلہ لینے) میں تمہارے لئے زندگی ہے۔یہ عمل مجموعی حیثیت سے حفاظت حیات کےلئے ہے۔اسی لئے مطلوب ہے۔اس سے ثابت ہوا کہ محض عضو کا کاٹنا جرم نہیں بلکہ غلط مقصد کےلئے کاٹنا جرم اوراچھے مقصد کے لئے کاٹنا پسندیدہ ہے۔انسان کے جسم کوکٹ لگانا جرم ہے۔لیکن جس طرح رسول اللہ ﷺ نے فرمایا! (الشفاء في ثلاث......وشرطة محجم.........الخ) (صحیح البخاری کتاب الطب باب الشفاء فی ثلاث حدیث 5680)شفاء تین چیزوں میں ہے۔(جراح کے نشتر میں۔۔۔۔۔۔) اگر علاج کےلئے جسم کو کاٹا جائے تو یہ جرم نہیں اچھاعمل ہوگا۔حفاظت حیات۔شفاء وغیرہ کے اعلیٰ مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے مرنے والے کی وصیت کے مطابق مرنے کے بعد مردہ جسم سے اعضاء کو نکال کر انہیں زندہرکھنے کے عمل کوجرم کے طور پر عضو نکالنے پرقیاس نہیں کیاجاسکتا۔ بلکہ اس عمل یعنی مردہ حصے کو الگ کرکے بچ سکنے والے اعضاء کو بچانے پر قیاس کیاجائے گا۔اعضاء کی پیوندکاری کی ایک صورت یہ ہے۔کہ زندہ انسان اپنا ایک گردہ دوسرے کودے دیتا ہے۔اور ایک گردے کے ساتھ نارمل زندگی گزارتا ہے۔اگرفیصلہ نیت کوسامنے رکھ کرکیا جائے۔تو یہ خوداذیتی یا خود کو نقصان پہنچانے والا عمل نہیں۔ بلکہ اعلیٰ ترین ایثارسے کام لےکر ایک انسان کی زندگی بچانے کا انتہائی قابلاحترام احترام عمل ہے۔ اور اللہ کے فرمان (وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا)جس نے ایک انسان کی زندگی بچائی اس نے گویا ساری انسانیت کی زندگی بچائی کی رو سے ان شاء اللہ قابل تحسین ہی ہوگا۔