Book - حدیث 3504

کِتَابُ الْإِجَارَةِ بَابٌ فِي الرَّجُلِ يَبِيعُ مَا لَيْسَ عِنْدَهُ حسن صحيح حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ أَبِيهِ حَتَّى ذَكَرَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >لَا يَحِلُّ سَلَفٌ وَبَيْعٌ، وَلَا شَرْطَانِ فِي بَيْعٍ، وَلَا رِبْحُ مَا لَمْ تَضْمَنْ، وَلَا بَيْعُ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ<.

ترجمہ Book - حدیث 3504

کتاب: اجارے کے احکام و مسائل باب: جو چیز انسان کے پاس نہ ہو اس کا فروخت کرنا سیدنا عبداللہ بن عمرو ( عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” ادھار اور بیع اور ایک بیع میں دو شرطیں حلال نہیں ہیں ‘ اور اس چیز کا نفع بھی حلال نہیں جو تیری اپنی ضمانت میں نہیں اور جو چیز تیرے پاس ( یعنی قبضے میں ) نہ ہو اسے مت فروخت کر ۔ “
تشریح : توضیح۔ادھار اور بیع۔اس کی ایک صورت یہ ہے کہ کوئی شخص نقد اورادھار کی قیمتوں میں فرق کو ناجائز سمجھتا ہے۔لیکن حیلے سے یہ انداز اختیار کرے۔ کہ کوئی چیز خریدے مگر رقم پاس نہ ہو۔ تو پھر اس دوکاندارتاجرسے رقم ادھار لے لے تاکہ بیع کی قیمت ادا کردے۔ ایک صورت یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ میں تین لاکھ کا یہ مکان تجھے دو لاکھ میں دیتا ہوں۔ بشرط یہ کہ تو مجھے پانچ لاکھ کامکان ادھار دے یا میں تجھے یہ غلام پچاس دینار میں بیچتا ہوں۔بشرط یہ کہ تو مجھے ایک ہزار درہم ادھاردے وغیرہ اوراس میں بنیادی علت ربا(سود) ہے۔ ایک بیع میں دو شرطیں۔ مثلا میں تجھے یہ چیز فروخت کرتا ہوں۔ بشرط یہ کہ آگے فروخت نہ کرے۔ اور نہ ہبہ کرے۔یا یہ کپڑا فروخت کرتا ہوں۔ اور اس شرط کے ساتھ کہ میں سلوا دوں گا۔اوردھلوا بھی دوں گا۔بعض علماء نے(بيعة في بيعتين)کو بھی اس میں شما ر کیا ہے۔(تفصیل کےلئے دیکھئے گزشتہ حدیث 3461 کے فوائد۔باقی کی تفصیل پچھلی حدیث کے فائدے میں ملاحظہ فرمایئں۔) توضیح۔ادھار اور بیع۔اس کی ایک صورت یہ ہے کہ کوئی شخص نقد اورادھار کی قیمتوں میں فرق کو ناجائز سمجھتا ہے۔لیکن حیلے سے یہ انداز اختیار کرے۔ کہ کوئی چیز خریدے مگر رقم پاس نہ ہو۔ تو پھر اس دوکاندارتاجرسے رقم ادھار لے لے تاکہ بیع کی قیمت ادا کردے۔ ایک صورت یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ میں تین لاکھ کا یہ مکان تجھے دو لاکھ میں دیتا ہوں۔ بشرط یہ کہ تو مجھے پانچ لاکھ کامکان ادھار دے یا میں تجھے یہ غلام پچاس دینار میں بیچتا ہوں۔بشرط یہ کہ تو مجھے ایک ہزار درہم ادھاردے وغیرہ اوراس میں بنیادی علت ربا(سود) ہے۔ ایک بیع میں دو شرطیں۔ مثلا میں تجھے یہ چیز فروخت کرتا ہوں۔ بشرط یہ کہ آگے فروخت نہ کرے۔ اور نہ ہبہ کرے۔یا یہ کپڑا فروخت کرتا ہوں۔ اور اس شرط کے ساتھ کہ میں سلوا دوں گا۔اوردھلوا بھی دوں گا۔بعض علماء نے(بيعة في بيعتين)کو بھی اس میں شما ر کیا ہے۔(تفصیل کےلئے دیکھئے گزشتہ حدیث 3461 کے فوائد۔باقی کی تفصیل پچھلی حدیث کے فائدے میں ملاحظہ فرمایئں۔)