Book - حدیث 3494

کِتَابُ الْإِجَارَةِ بَابٌ فِي بَيْعِ الطَّعَامِ قَبْلَ أَنْ يَسْتَوْفِيَ صحیح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ أَخْبَرَنِي نَافِعٌ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ كَانُوا يَتَبَايَعُونَ الطَّعَامَ جُزَافًا بِأَعْلَى السُّوقِ فَنَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَبِيعُوهُ حَتَّى يَنْقُلُوهُ

ترجمہ Book - حدیث 3494

کتاب: اجارے کے احکام و مسائل باب: غلہ اپنے قبضے میں لینے سے پہلے ہی فروخت کرنا سیدنا ابن عمر ؓ نے بیان کیا کہ لوگ منڈی کی بالائی جانب اندازے سے غلہ خریدتے تھے ، تو رسول اللہ ﷺ نے اس کو فروخت کرنے سے منع فر دیا ، یہاں تک کہ وہ اسے دوسری جگہ منتقل کر لیں ۔
تشریح : فائدہ۔(جزافاً) کے معنی ہیں کہ اس کا کیل (ناپ) یا وزن متعین نہ ہوتا تھا۔بلکہ ویسے ہی ایک ڈھیر کاسودا کرلیا جاتا تھا۔اور پھر اسے ویسے ہی تولے بغیر اور قبضے میں لیے ڈھیر ہی کی شکل میں فروخت کردیا جاتا تھا۔اسے بعض افراد نے جائز قرار دیا ہے۔لیکن احادیث کے الفاظ سے تو یہی معلوم ہوتا ہے۔ کہ غلہ ناپ تول کرلیا جائے۔ڈھیری کی شکل میں اسے قبضے میں لئے بغیر ناپ تول کے بغیر بیچنا جائز نہیں۔اور ڈھیری کا قبضہ یہی ہے۔ کہ اسے دوسری جگہ منتقل کردیا جائے۔ فائدہ۔(جزافاً) کے معنی ہیں کہ اس کا کیل (ناپ) یا وزن متعین نہ ہوتا تھا۔بلکہ ویسے ہی ایک ڈھیر کاسودا کرلیا جاتا تھا۔اور پھر اسے ویسے ہی تولے بغیر اور قبضے میں لیے ڈھیر ہی کی شکل میں فروخت کردیا جاتا تھا۔اسے بعض افراد نے جائز قرار دیا ہے۔لیکن احادیث کے الفاظ سے تو یہی معلوم ہوتا ہے۔ کہ غلہ ناپ تول کرلیا جائے۔ڈھیری کی شکل میں اسے قبضے میں لئے بغیر ناپ تول کے بغیر بیچنا جائز نہیں۔اور ڈھیری کا قبضہ یہی ہے۔ کہ اسے دوسری جگہ منتقل کردیا جائے۔