Book - حدیث 3461

کِتَابُ الْإِجَارَةِ بَابٌ فِيمَنْ بَاعَ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ حسن حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ زَكَرِيَّا، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >مَنْ بَاعَ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ، فَلَهُ أَوْكَسُهُمَا أَوِ الرِّبَا<.

ترجمہ Book - حدیث 3461

کتاب: اجارے کے احکام و مسائل باب: ایک سودے میں دو سودے کرنا سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” جس نے ایک سودے میں دو سودے کیے تو اس کے لیے ان میں سے یا تو کم قیمت ہے یا سود ہے ۔ “
تشریح : توضیح۔اس کی وضاحت میں فقہا کرام یہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی یوں کہے کہ اس چیز کی نقد قیمت سوروپیہ او رادھار دوسوروپیہ ہے۔اور وہ دونوں معاملہ کرلیں۔لیکن نقد یا ادھار میں سے کوئی سی صورت وضاحت سے متعین نہ کریں تو یہ ایک سودے میں دو سودے ہوں گے۔اس میں چونکہ ایک قیمت متعین نہیں ہوتی۔اس لئے بیع فاسد ہے۔دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی کہے میں تمھیں یہ چیز سوروپے میں فروخت کرتاہوں۔بشرط یہ کہ تم اپنی فلاں چیز پچاس روپے میں مجھے فروخت کرو۔یہ بھی ایک سودے میں دو سودے ہیں۔ اور غرض دوسے کی چیز سستی لینا ہے۔اس می سود کا عنصر شامل ہے۔یہ صورت بھی مذکورہ بالا باب میں بیان کردہ صورت کی طرح سود کاایک حیلے کے طور پر اختیار کرناہے۔علامہ ابن اثیر ؒ نے ایک سودے میں دوسودوں کی ایک صورت یہ بھی لکھی ہے۔ کہ کسی ایک نے دوسرے کو پانچ سو روپے دیے ہوں۔کہ ایک مہینے میں مجھے گندم کی بوری دے دینامگر وقت آنے پر وہ گندم نہ دے سکے تووسرا پہلے سے کہہ سکے کہ تم مجھے وہ بوری فروخت کردو۔میں ایک مہینہ بعد تمھیں دو بوریاں دوں گا۔ یہ تو صریح سود ہے۔نیز ایک معدوم شے کی بیع بھی ہے۔جو جائز نہیں۔خیال رہے کہ پہلی صورت میں اگر دونوں فریق کسی ایک قیمت پر متفق ہوکرعلیحدہ ہوں۔تو کوئی حرج نہیں۔یہ بیع بالکل صحیح ہوگی۔علماء فقہاء کی اکثریت اس کے جواز کی قائل ہے۔بنا بریں ان فقہاء کے نزدیک نقد ادھار کی قیمت میں فرق جائز ہے۔اور ا س طرح قسطوں پر کاروبار بھی جائز ہے۔تاہم علماء کا ایک گروہ اس کے جواز کا قائل نہیں ہے۔ان کے نزدیک نقد وادھار کی قیمت کافرق حدیث کے الفاظ (فله اوكسها اوالربا) کی رو سے ربا کا واضح احتمال اپنے اندر رکھتا ہے۔اس لئے قسطوں کا کاروبار ربا (سود) کے شابے سے پاک نہیں ہے۔جب ایس ہے تو اس کاروبار سے بچنا بہرحال بہتر ہے۔اسی طرح قسطوں پر اشیاء کا خریدنا بھی خلاف اولیٰ ہے۔واللہ اعلم۔ توضیح۔اس کی وضاحت میں فقہا کرام یہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی یوں کہے کہ اس چیز کی نقد قیمت سوروپیہ او رادھار دوسوروپیہ ہے۔اور وہ دونوں معاملہ کرلیں۔لیکن نقد یا ادھار میں سے کوئی سی صورت وضاحت سے متعین نہ کریں تو یہ ایک سودے میں دو سودے ہوں گے۔اس میں چونکہ ایک قیمت متعین نہیں ہوتی۔اس لئے بیع فاسد ہے۔دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی کہے میں تمھیں یہ چیز سوروپے میں فروخت کرتاہوں۔بشرط یہ کہ تم اپنی فلاں چیز پچاس روپے میں مجھے فروخت کرو۔یہ بھی ایک سودے میں دو سودے ہیں۔ اور غرض دوسے کی چیز سستی لینا ہے۔اس می سود کا عنصر شامل ہے۔یہ صورت بھی مذکورہ بالا باب میں بیان کردہ صورت کی طرح سود کاایک حیلے کے طور پر اختیار کرناہے۔علامہ ابن اثیر ؒ نے ایک سودے میں دوسودوں کی ایک صورت یہ بھی لکھی ہے۔ کہ کسی ایک نے دوسرے کو پانچ سو روپے دیے ہوں۔کہ ایک مہینے میں مجھے گندم کی بوری دے دینامگر وقت آنے پر وہ گندم نہ دے سکے تووسرا پہلے سے کہہ سکے کہ تم مجھے وہ بوری فروخت کردو۔میں ایک مہینہ بعد تمھیں دو بوریاں دوں گا۔ یہ تو صریح سود ہے۔نیز ایک معدوم شے کی بیع بھی ہے۔جو جائز نہیں۔خیال رہے کہ پہلی صورت میں اگر دونوں فریق کسی ایک قیمت پر متفق ہوکرعلیحدہ ہوں۔تو کوئی حرج نہیں۔یہ بیع بالکل صحیح ہوگی۔علماء فقہاء کی اکثریت اس کے جواز کی قائل ہے۔بنا بریں ان فقہاء کے نزدیک نقد ادھار کی قیمت میں فرق جائز ہے۔اور ا س طرح قسطوں پر کاروبار بھی جائز ہے۔تاہم علماء کا ایک گروہ اس کے جواز کا قائل نہیں ہے۔ان کے نزدیک نقد وادھار کی قیمت کافرق حدیث کے الفاظ (فله اوكسها اوالربا) کی رو سے ربا کا واضح احتمال اپنے اندر رکھتا ہے۔اس لئے قسطوں کا کاروبار ربا (سود) کے شابے سے پاک نہیں ہے۔جب ایس ہے تو اس کاروبار سے بچنا بہرحال بہتر ہے۔اسی طرح قسطوں پر اشیاء کا خریدنا بھی خلاف اولیٰ ہے۔واللہ اعلم۔