Book - حدیث 3460

کِتَابُ الْإِجَارَةِ بَابٌ فِي فَضْلِ الْإِقَالَةِ صحیح حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، حَدَّثَنَا حَفْصٌ عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >مَنْ أَقَالَ مُسْلِمًا أَقَالَهُ اللَّهُ عَثْرَتَهُ<.

ترجمہ Book - حدیث 3460

کتاب: اجارے کے احکام و مسائل باب: سودا واپس کر لینے کی فضیلت سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” جس نے کسی مسلمان کا سودا واپس کر لیا ، اللہ اس کی لغزشیں واپس کر لے گا ۔ “ ( یعنی معاف فر دے گا ) ۔
تشریح : فائدہ۔جب بیع شرعی اصولوں کے تحت ہوئی۔ سودا قطیعت سے طے ہوگیا۔اورایک دھوکا ختم ہوگیا۔تو اس کے بیچنے والا شرعاً واپسی کا پابند نہیں۔لیکن اخلاق اور خیرخواہی کا تقاضا ہے۔کہ دوسرا فریق راضی نہیں۔ تو سودا واپس کرلیا جائے۔کیونکہ تجارت کی بنیاد ہی باہمی رضا مندی پرہے۔اس حدیث میں بیان کردہ امر کی فضیلت کا بیان ہے۔علاوہ ازیں جس دوکاندارکا سودا سچا اورکھرا ہو۔اس نے بیچا بھی مناسب نفع کے ساتھ ہو۔اسے سودا واپس کرلینے میں کوئی تعامل نہیں ہوتا۔صرف وہی دوکاندار سودا واپس لینے سے انکارکرتاہے۔ جس کاسودا کھوٹا ہو یا اس نے بہت زیادہ منافع لے کر بیچا ہو۔اس طرح گویا سودا واپس لرلینے کی فضیلت بیان کرنے میں بالواسطہ اس امر کی ترغیب ہے۔کہ دوکاندارسودا بھی صحیح رکھیں۔اور بیچیں بھی مناسب نفع کےساتھ تاکہ کوئی واپس کرنا چاہے تو اسے واپس لینے میں تامل نہ ہو۔ فائدہ۔جب بیع شرعی اصولوں کے تحت ہوئی۔ سودا قطیعت سے طے ہوگیا۔اورایک دھوکا ختم ہوگیا۔تو اس کے بیچنے والا شرعاً واپسی کا پابند نہیں۔لیکن اخلاق اور خیرخواہی کا تقاضا ہے۔کہ دوسرا فریق راضی نہیں۔ تو سودا واپس کرلیا جائے۔کیونکہ تجارت کی بنیاد ہی باہمی رضا مندی پرہے۔اس حدیث میں بیان کردہ امر کی فضیلت کا بیان ہے۔علاوہ ازیں جس دوکاندارکا سودا سچا اورکھرا ہو۔اس نے بیچا بھی مناسب نفع کے ساتھ ہو۔اسے سودا واپس کرلینے میں کوئی تعامل نہیں ہوتا۔صرف وہی دوکاندار سودا واپس لینے سے انکارکرتاہے۔ جس کاسودا کھوٹا ہو یا اس نے بہت زیادہ منافع لے کر بیچا ہو۔اس طرح گویا سودا واپس لرلینے کی فضیلت بیان کرنے میں بالواسطہ اس امر کی ترغیب ہے۔کہ دوکاندارسودا بھی صحیح رکھیں۔اور بیچیں بھی مناسب نفع کےساتھ تاکہ کوئی واپس کرنا چاہے تو اسے واپس لینے میں تامل نہ ہو۔