Book - حدیث 3451

کِتَابُ الْإِجَارَةِ بَابٌ فِي التَّسْعِيرِ صحیح حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَقَتَادَةُ وَحُمَيْدٌ عَنْ أَنَسٍ قَالَ النَّاسُ يَا رَسُولَ اللَّهِ غَلَا السِّعْرُ فَسَعِّرْ لَنَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمُسَعِّرُ الْقَابِضُ الْبَاسِطُ الرَّازِقُ وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ أَلْقَى اللَّهَ وَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْكُمْ يُطَالِبُنِي بِمَظْلَمَةٍ فِي دَمٍ وَلَا مَالٍ

ترجمہ Book - حدیث 3451

کتاب: اجارے کے احکام و مسائل باب: نرخ مقرر کرنا سیدنا انس بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ لوگوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! نرخ بہت بڑھ گئے ہیں ، لہٰذا آپ نرخ مقرر فر دیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” بلاشبہ اللہ عزوجل ہی نرخ مقرر کرنے والا ہے ، وہی تنگی کرنے والا ، وسعت دینے والا ، روزی رساں ہے ۔ اور مجھے یقین ہے کہ میں اللہ سے اس حال میں ملوں گا کہ تم میں سے کوئی بھی مجھ پر کسی خون یا مال کے معاملے میں کوئی مطالبہ نہ رکھتا ہو گا ۔ “
تشریح : فائدہ۔رسول اللہ ﷺ نے قیمتوں کومارکیٹ فورسز خصوصا رسد وطلب کے فطری توازن کے مطابق رکھنے پرزور دیا اورمہنگائی کے باوجود قیمتیں مقرر کرنے سے انکار کردیا۔آپ کا یہ فرمان کے اللہ ہی (چیزوں کی رسد)گھٹانے بڑھانے والا ہے۔ موجودہ اکنامکس کے تصورات سے صدیوں پہلے علم کی بات ہے۔آپ نے اس کےذریعے معیشت کا ایک بنیادی اصول بیان فرمایا ہے۔اور منڈی کے عوامل کے آزاد رہنے کو انصاف اور عدل قراردیا۔قیمتوں کے تقرر سے کسی نہ کسی کا حق ضرور ماراجاتا ہے۔اس لئے ا سے اجتناب کا حکمدیا۔اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلتاہے۔ کہ مہنگائی کا علاج یہ ہے۔کے اشیاء کی ر سد میں برکت ہو۔اللہ تعالیٰ سے دعا کا مفہوم یہی ہے۔کہ وہ چیزوں کی پیدوار میں برکت عطا کرے۔اور ضرورت پوری کرنے کا متبادل انتظام کردے۔حکومت کویہی کرنا چاہیے کہ وہ مہنگائی توڑنے کےلئے رسد میں اضافے کی کوش کرے۔اور متبادل طریقے تلاش کرے۔یہ مہنگائی کا کامیاب علاج کرے۔جب کہ قیمتیں مقرر کرنے کے باوجود منڈی میں ان پر عمل نہیں ہوتا۔اورچیزوں کی چور بازاری شروع ہوجاتی ہے۔جن سے لوگوں کی ازیت میں اضافہ ہوجاتاہے۔ فائدہ۔رسول اللہ ﷺ نے قیمتوں کومارکیٹ فورسز خصوصا رسد وطلب کے فطری توازن کے مطابق رکھنے پرزور دیا اورمہنگائی کے باوجود قیمتیں مقرر کرنے سے انکار کردیا۔آپ کا یہ فرمان کے اللہ ہی (چیزوں کی رسد)گھٹانے بڑھانے والا ہے۔ موجودہ اکنامکس کے تصورات سے صدیوں پہلے علم کی بات ہے۔آپ نے اس کےذریعے معیشت کا ایک بنیادی اصول بیان فرمایا ہے۔اور منڈی کے عوامل کے آزاد رہنے کو انصاف اور عدل قراردیا۔قیمتوں کے تقرر سے کسی نہ کسی کا حق ضرور ماراجاتا ہے۔اس لئے ا سے اجتناب کا حکمدیا۔اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلتاہے۔ کہ مہنگائی کا علاج یہ ہے۔کے اشیاء کی ر سد میں برکت ہو۔اللہ تعالیٰ سے دعا کا مفہوم یہی ہے۔کہ وہ چیزوں کی پیدوار میں برکت عطا کرے۔اور ضرورت پوری کرنے کا متبادل انتظام کردے۔حکومت کویہی کرنا چاہیے کہ وہ مہنگائی توڑنے کےلئے رسد میں اضافے کی کوش کرے۔اور متبادل طریقے تلاش کرے۔یہ مہنگائی کا کامیاب علاج کرے۔جب کہ قیمتیں مقرر کرنے کے باوجود منڈی میں ان پر عمل نہیں ہوتا۔اورچیزوں کی چور بازاری شروع ہوجاتی ہے۔جن سے لوگوں کی ازیت میں اضافہ ہوجاتاہے۔