Book - حدیث 3443

کِتَابُ الْإِجَارَةِ بَابُ مَنْ اشْتَرَى مُصَرَّاةً فَكَرِهَهَا صحیح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكٍ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَلَقَّوْا الرُّكْبَانَ لِلْبَيْعِ وَلَا يَبِعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ وَلَا تُصَرُّوا الْإِبِلَ وَالْغَنَمَ فَمَنْ ابْتَاعَهَا بَعْدَ ذَلِكَ فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ بَعْدَ أَنْ يَحْلُبَهَا فَإِنْ رَضِيَهَا أَمْسَكَهَا وَإِنْ سَخِطَهَا رَدَّهَا وَصَاعًا مِنْ تَمْرٍ

ترجمہ Book - حدیث 3443

کتاب: اجارے کے احکام و مسائل باب: اگر کسی نے دودھ روکا ہوا جانور خرید لیا ہو اور پھر وہ اسے پسند نہ آئے تو...؟ سیدنا ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” ( منڈی میں پہنچنے سے پہلے ) خریداری کے لیے قافلوں سے مت ملو ۔ اور کوئی شخص کسی دوسرے کے سودے پر سودا نہ کرے اور اونٹنی یا بکری کا دودھ مت روکو ۔ جس نے اس قسم کا جانور خرید لیا ہو ، تو دودھ دوہ لینے کے بعد اسے دو باتوں کا اختیار ہے ، اگر وہ پسند ہو تو رکھ لے اور اگر پسند نہ آئے تو اسے لوٹا دے اور ساتھ ایک صاع کھجور بھی دے ۔ “
تشریح : فائدہ۔مذکورہ باب میں بنیادی طور پر یہ مسئلہ بیان کیا گیا ہے۔کہ زیادہ قیمت حاصل کرنے کےلئے دودھ دینے والے جانورکا دودھ روکنا تاکہ گاہک اسے زیادہ دودھ دینے والا جانور سمجھ کر زیادہ قیمت دے حرام ہے۔خریدار کو تین دن تک آزمانے کی اجازت ہے۔اگر وہ ایسا جانور نہ رکھنا چاہیں۔ تو واپس کرکے اپنی قیمت لےسکتا ہے۔ البتہ دودھ جو جانوروں کے تھنوں میں خریداری کے وقت سے پہلے کا تھا۔اور بیع مکمل ہونے کی صورت میں بیچنے والے کی طرف سے اپنی مرضی کے ساتھ چھوڑ دیا گیاتھا۔اس کی حق دہی بھی ضروری ہے۔اپنی پوری قیمت کی واپسی کے بعد خریدار کا اس پر حق باقی نہیں رہا۔ انصاف کےاعلیٰ معیار کے مطابق خریدار کو اس کے بدلے میں ایک صاع (تقریبا ڈھائی کلو ) کھجور ادا کرنی چاہیے۔عرب میں کھجور مقامی طور پر پیدا ہوتی تھی۔اور سستی تھی۔گندم خصوصاعمدہ قسم کی باہر سے لائی جاتی تھی۔ اس لئے مہنگی تھی۔رسول اللہ ﷺ نے عام غذائی جنس دینے کا حکمدیا۔ کہ سمراء یعنی بڑھیا گندم دینے کی ضرورت نہیں۔اس کی حکمت یہ نظر آتی ہے کہ واپس کرنے والے سے زیادہ بہتر غذا کا مطالبہ نہ کیاجائے۔ اس سلسلے میں حضرت ابو ہریرہرضی اللہ تعالیٰ عنہ کےعلاوہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کافتویٰ بھی یہی ہے بلکہ صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین میں سے کسی نےاس سے اختلاف نہیں کیا۔(فتح الباری کتاب البیوع ۔باب النھی للبائع ان لا یحفل۔۔۔) صرف احناف میں سے بعض کی رائے اس کے مخالف ہے۔جب کہ امام زفر ایک روایت کے مطابق امام ابو یوسف بھی جمہور ہی کے ساتھ ہیں۔ البتہ امام ابو یوسف ہر صورت کھجور کا صاع دینے کی پابندی سے اختلاف رکھتے ہیں۔اس کی قیمت ادا کرنے کو بھی روا سمجھتے ہیں۔(فتح الباری کتاب البیوع ۔باب النھی للبائع ان لا یحفل۔۔۔) اب اسلام بہت دور تک پھیل چکا ہے۔انڈونیشیا ۔نایجریا۔جیسے ممالک میں کھجور دستیاب ہیں نہیں۔اس لئے اس علاقے کی باآسانی دستیاب غذائی جنس کھجور کے قائم مقام ہوگی۔اور جس طرح امام ابو یوسف کانقطعہ نظر ہے۔ایسی جنس کی قیمت ادا کر دینا بھی درست ہوگا۔واللہ اعلم۔ فائدہ۔مذکورہ باب میں بنیادی طور پر یہ مسئلہ بیان کیا گیا ہے۔کہ زیادہ قیمت حاصل کرنے کےلئے دودھ دینے والے جانورکا دودھ روکنا تاکہ گاہک اسے زیادہ دودھ دینے والا جانور سمجھ کر زیادہ قیمت دے حرام ہے۔خریدار کو تین دن تک آزمانے کی اجازت ہے۔اگر وہ ایسا جانور نہ رکھنا چاہیں۔ تو واپس کرکے اپنی قیمت لےسکتا ہے۔ البتہ دودھ جو جانوروں کے تھنوں میں خریداری کے وقت سے پہلے کا تھا۔اور بیع مکمل ہونے کی صورت میں بیچنے والے کی طرف سے اپنی مرضی کے ساتھ چھوڑ دیا گیاتھا۔اس کی حق دہی بھی ضروری ہے۔اپنی پوری قیمت کی واپسی کے بعد خریدار کا اس پر حق باقی نہیں رہا۔ انصاف کےاعلیٰ معیار کے مطابق خریدار کو اس کے بدلے میں ایک صاع (تقریبا ڈھائی کلو ) کھجور ادا کرنی چاہیے۔عرب میں کھجور مقامی طور پر پیدا ہوتی تھی۔اور سستی تھی۔گندم خصوصاعمدہ قسم کی باہر سے لائی جاتی تھی۔ اس لئے مہنگی تھی۔رسول اللہ ﷺ نے عام غذائی جنس دینے کا حکمدیا۔ کہ سمراء یعنی بڑھیا گندم دینے کی ضرورت نہیں۔اس کی حکمت یہ نظر آتی ہے کہ واپس کرنے والے سے زیادہ بہتر غذا کا مطالبہ نہ کیاجائے۔ اس سلسلے میں حضرت ابو ہریرہرضی اللہ تعالیٰ عنہ کےعلاوہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کافتویٰ بھی یہی ہے بلکہ صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین میں سے کسی نےاس سے اختلاف نہیں کیا۔(فتح الباری کتاب البیوع ۔باب النھی للبائع ان لا یحفل۔۔۔) صرف احناف میں سے بعض کی رائے اس کے مخالف ہے۔جب کہ امام زفر ایک روایت کے مطابق امام ابو یوسف بھی جمہور ہی کے ساتھ ہیں۔ البتہ امام ابو یوسف ہر صورت کھجور کا صاع دینے کی پابندی سے اختلاف رکھتے ہیں۔اس کی قیمت ادا کرنے کو بھی روا سمجھتے ہیں۔(فتح الباری کتاب البیوع ۔باب النھی للبائع ان لا یحفل۔۔۔) اب اسلام بہت دور تک پھیل چکا ہے۔انڈونیشیا ۔نایجریا۔جیسے ممالک میں کھجور دستیاب ہیں نہیں۔اس لئے اس علاقے کی باآسانی دستیاب غذائی جنس کھجور کے قائم مقام ہوگی۔اور جس طرح امام ابو یوسف کانقطعہ نظر ہے۔ایسی جنس کی قیمت ادا کر دینا بھی درست ہوگا۔واللہ اعلم۔