کِتَابُ الْإِجَارَةِ بَابٌ فِي عَسْبِ الْفَحْلِ صحیح حَدَّثَنَا مُسَدَّدُ بْنُ مُسَرْهَدٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ، عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ عَسْبِ الْفَحْلِ.
کتاب: اجارے کے احکام و مسائل
باب: جانور کو جفتی کرانے کی اجرت لینا
سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جانور کو جفتی کرانے کی قیمت سے منع فرمایا ہے ۔
تشریح :
فائدہ۔مویشی پالنے والے جانتے ہیں۔کہ چراگاہوں میں ریوڑوں کے ریوڑ چرتے پھرتے ہیں اورفطری طریقے پر جانوروں کاملاپ ہوتا رہتا ہے ۔اس عمل کی اجرت یا قیمت نہ طے ہوسکتی ہےنہ اسکی اجرت وصول کرنے کی غرض سے جانوروں کوفطری ملاپ سے روکنا روا ہے۔حدیث مبارک مادہ جانوروں کاحق ہے۔کہ نر جانور ان سے ملاپ کریں۔ (صحیح مسلم حدیث 988) اسی چیز پردلالت کرتی ہے۔
رسول اللہﷺنےاس قیمت پریااجرت طلب کرنے پر منع فرمایا ہے۔البتہ ایک صحابی نے جب اصرار سے پوچھا کہ ہم جب (طلب کرنے پر) اپنا نر جانور لے جاتے ہیں۔تو وہاں ہمارا اکرام کیا جاتا ہے۔اورکچھ نہ کچھ ہدیہ پیش کیا جاتا ہے۔توآپﷺ نے اس کی اجازت دے دی۔ اس اجازت سے پتہ چلتا ہے کہ باقاعدہ خریدوفروخت سے ہٹ کرجانور رکھنے والوں کی سہولت کےلئے لین دین کا جو رواج موجود ہے۔اسے ختم کرکے سسٹم کو خراب کرنا مقصود نہیں۔چراگاہوں کوچھوڑ کر باقی جگہوں پر بعض اوقات نرجانور آسانی سے دستیاب نہیں ہوسکتے۔اس صورت کو سامنے رکھ کر امام مالک نے نسل کے زیاں سے بچنے کےلئے اس کی اجازت دی ہے۔(فتح الباری ۔582/4)جب سے جانوروں کے مالکوں میں یہ احساس پیدا ہوا ہے کہ دودھ وغیرہ کے حصول کےلئے اچھی نسل کے جانوروں کی پیدائش ضروری ہے۔تو اچھی نسل کے نروں کی مانگ بڑھ گئی ہے۔بلکہ اب تو مصنوعی نسل کشی کا جدید طریقہ رائج ہوگیا ہے۔اب اچھی نسل کے نراسی غرض سے پالے جاتے ہیں۔ان پر خرچ کیاجاتا ہے۔اور ان سے حاصل ہونے والے مادے سے مصنوعی طور پر نسل کشی کی جاتی ہے۔اگر اس کےلئے باقاعدہ قیمت یا اجرت کا تعین کرنے کی بجائے اکرام کے تحت لین دین کا طریقہ رائج ہوجائے۔توشرعا اس پراعتراض نہیں ہوگا۔قدیم فقہاء اور مفسرین نے ملاپ کے عمل پر اجرت یا قیمت نہ لینے کی یہ وجہ زکر کی ہے۔کہ جس چیز کی اجرت لی جارہی ہے۔اس کی نہ مقدار کاتعین ہوسکتاہے۔نہ اس کی فراہمی یقینی ہوتی ہے۔ اس لئے یہ غیر معلوم اور غیر معلوم اور غیر یقینی چیز کی اجرت ہوگی۔جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔
اگر حرمت کی یہ وجہ صحیح تسلیم کرلی جائے۔تو مصنوعی طریقوں کی وجہ سے اب یہ غیر معلوم اور غیر یقینی چیز نہیں رہی۔جدید تکنیک کے زریعے سے باقاعدہ متعین مقدار میں نر جانور کا مواد مادہ جانور کے رحم میں داخل کردیا جاتاہے۔اس طرح تو اجرت کابھی جواز پیدا ہوسکتا ہے۔
یہ بات اپنی جگہ اہم ہے۔کہ خود مصنوعی نسل کشی شرعا جائز ہے یا نہیں؟اس کے جواز پرتابیر (کھجور کے پھل دینے والے درختوں پر نرکھجور کا بورلاکر ڈالنا ) کی حدیث سے استدلال کیا جاسکتاہے۔ رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائےتو پیداوارحاصل کرنے کے اس مصنوعی طریقے کو آپ نے فطری طورپر ناپسند فرمایا اور اس سے روک دیا لیکن جب معلوم ہوا کہ اس سے کھجوروں ک پیدا وار کم ہوگئی ہے۔ تو آپ نے باقاعدہ اس کی اجازت دے دی۔اس حدیث کی رو سے نرکا مواد مصنوعی طریقے سے مادہ تک پہنچانے کا طریقہ اختیار کرنے کی اجازت موجود ہے۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان تجارتی طریقوں کی بجائے فطری طریقوں کورائج کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔مسلمان حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ رفاہ عامہ کی غرض سے زیادہ سے زیادہ تعداد میں اعلیٰ نسل کے نر جانوروں کا انتظام کریں تاکہ فطری طریقوں سے اعلیٰ نسل کے جانور حاصل ہوں اور لوگ تجارتی بنیادوں پراس کا انتطام کرنے کی مجبوری سے بچ جایئں۔
رسول اللہ ﷺ نے جانوروں کے حق کے حوالے سے جو اشارہ فرمایا ہے۔وہ رفق بالحیوانات (جانوروں سے نرمی کا سلوک کرنا) کی بہترین مثال ہے۔ان حقوق کو پورا کرنے کی بھی یہی صورت ہے کہ حکومتیں بڑے پیمانے پر اعلیٰ نسل کے نر جانوروں کا انتظام کریں۔
فائدہ۔مویشی پالنے والے جانتے ہیں۔کہ چراگاہوں میں ریوڑوں کے ریوڑ چرتے پھرتے ہیں اورفطری طریقے پر جانوروں کاملاپ ہوتا رہتا ہے ۔اس عمل کی اجرت یا قیمت نہ طے ہوسکتی ہےنہ اسکی اجرت وصول کرنے کی غرض سے جانوروں کوفطری ملاپ سے روکنا روا ہے۔حدیث مبارک مادہ جانوروں کاحق ہے۔کہ نر جانور ان سے ملاپ کریں۔ (صحیح مسلم حدیث 988) اسی چیز پردلالت کرتی ہے۔
رسول اللہﷺنےاس قیمت پریااجرت طلب کرنے پر منع فرمایا ہے۔البتہ ایک صحابی نے جب اصرار سے پوچھا کہ ہم جب (طلب کرنے پر) اپنا نر جانور لے جاتے ہیں۔تو وہاں ہمارا اکرام کیا جاتا ہے۔اورکچھ نہ کچھ ہدیہ پیش کیا جاتا ہے۔توآپﷺ نے اس کی اجازت دے دی۔ اس اجازت سے پتہ چلتا ہے کہ باقاعدہ خریدوفروخت سے ہٹ کرجانور رکھنے والوں کی سہولت کےلئے لین دین کا جو رواج موجود ہے۔اسے ختم کرکے سسٹم کو خراب کرنا مقصود نہیں۔چراگاہوں کوچھوڑ کر باقی جگہوں پر بعض اوقات نرجانور آسانی سے دستیاب نہیں ہوسکتے۔اس صورت کو سامنے رکھ کر امام مالک نے نسل کے زیاں سے بچنے کےلئے اس کی اجازت دی ہے۔(فتح الباری ۔582/4)جب سے جانوروں کے مالکوں میں یہ احساس پیدا ہوا ہے کہ دودھ وغیرہ کے حصول کےلئے اچھی نسل کے جانوروں کی پیدائش ضروری ہے۔تو اچھی نسل کے نروں کی مانگ بڑھ گئی ہے۔بلکہ اب تو مصنوعی نسل کشی کا جدید طریقہ رائج ہوگیا ہے۔اب اچھی نسل کے نراسی غرض سے پالے جاتے ہیں۔ان پر خرچ کیاجاتا ہے۔اور ان سے حاصل ہونے والے مادے سے مصنوعی طور پر نسل کشی کی جاتی ہے۔اگر اس کےلئے باقاعدہ قیمت یا اجرت کا تعین کرنے کی بجائے اکرام کے تحت لین دین کا طریقہ رائج ہوجائے۔توشرعا اس پراعتراض نہیں ہوگا۔قدیم فقہاء اور مفسرین نے ملاپ کے عمل پر اجرت یا قیمت نہ لینے کی یہ وجہ زکر کی ہے۔کہ جس چیز کی اجرت لی جارہی ہے۔اس کی نہ مقدار کاتعین ہوسکتاہے۔نہ اس کی فراہمی یقینی ہوتی ہے۔ اس لئے یہ غیر معلوم اور غیر معلوم اور غیر یقینی چیز کی اجرت ہوگی۔جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔
اگر حرمت کی یہ وجہ صحیح تسلیم کرلی جائے۔تو مصنوعی طریقوں کی وجہ سے اب یہ غیر معلوم اور غیر یقینی چیز نہیں رہی۔جدید تکنیک کے زریعے سے باقاعدہ متعین مقدار میں نر جانور کا مواد مادہ جانور کے رحم میں داخل کردیا جاتاہے۔اس طرح تو اجرت کابھی جواز پیدا ہوسکتا ہے۔
یہ بات اپنی جگہ اہم ہے۔کہ خود مصنوعی نسل کشی شرعا جائز ہے یا نہیں؟اس کے جواز پرتابیر (کھجور کے پھل دینے والے درختوں پر نرکھجور کا بورلاکر ڈالنا ) کی حدیث سے استدلال کیا جاسکتاہے۔ رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائےتو پیداوارحاصل کرنے کے اس مصنوعی طریقے کو آپ نے فطری طورپر ناپسند فرمایا اور اس سے روک دیا لیکن جب معلوم ہوا کہ اس سے کھجوروں ک پیدا وار کم ہوگئی ہے۔ تو آپ نے باقاعدہ اس کی اجازت دے دی۔اس حدیث کی رو سے نرکا مواد مصنوعی طریقے سے مادہ تک پہنچانے کا طریقہ اختیار کرنے کی اجازت موجود ہے۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان تجارتی طریقوں کی بجائے فطری طریقوں کورائج کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔مسلمان حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ رفاہ عامہ کی غرض سے زیادہ سے زیادہ تعداد میں اعلیٰ نسل کے نر جانوروں کا انتظام کریں تاکہ فطری طریقوں سے اعلیٰ نسل کے جانور حاصل ہوں اور لوگ تجارتی بنیادوں پراس کا انتطام کرنے کی مجبوری سے بچ جایئں۔
رسول اللہ ﷺ نے جانوروں کے حق کے حوالے سے جو اشارہ فرمایا ہے۔وہ رفق بالحیوانات (جانوروں سے نرمی کا سلوک کرنا) کی بہترین مثال ہے۔ان حقوق کو پورا کرنے کی بھی یہی صورت ہے کہ حکومتیں بڑے پیمانے پر اعلیٰ نسل کے نر جانوروں کا انتظام کریں۔