Book - حدیث 3399

كِتَابُ الْبُيُوعِ بَابٌ فِي التَّشْدِيدِ فِي ذَلِكَ صحيح الإسناد حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الْخَطْمِيُّ قَالَ بَعَثَنِي عَمِّي أَنَا وَغُلَامًا لَهُ إِلَى سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ قَالَ فَقُلْنَا لَهُ شَيْءٌ بَلَغَنَا عَنْكَ فِي الْمُزَارَعَةِ قَالَ كَانَ ابْنُ عُمَرَ لَا يَرَى بِهَا بَأْسًا حَتَّى بَلَغَهُ عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ حَدِيثٌ فَأَتَاهُ فَأَخْبَرَهُ رَافِعٌ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَى بَنِي حَارِثَةَ فَرَأَى زَرْعًا فِي أَرْضِ ظُهَيْرٍ فَقَالَ مَا أَحْسَنَ زَرْعَ ظُهَيْرٍ قَالُوا لَيْسَ لِظُهَيْرٍ قَالَ أَلَيْسَ أَرْضُ ظُهَيْرٍ قَالُوا بَلَى وَلَكِنَّهُ زَرْعُ فُلَانٍ قَالَ فَخُذُوا زَرْعَكُمْ وَرُدُّوا عَلَيْهِ النَّفَقَةَ قَالَ رَافِعٌ فَأَخَذْنَا زَرْعَنَا وَرَدَدْنَا إِلَيْهِ النَّفَقَةَ قَالَ سَعِيدٌ أَفْقِرْ أَخَاكَ أَوْ أَكْرِهِ بِالدَّرَاهِمِ

ترجمہ Book - حدیث 3399

کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل باب: بٹائی کے ممنوع ہونے کا بیان ابوجعفر خطمی کا بیان ہے کہ میرے چچا نے مجھے اور اپنے غلام کو جناب سعید بن مسیب ؓ کے ہاں بھیجا اور ہم نے ان سے کہا : ہمیں آپ کی طرف سے مزارعت کے بارے میں ایک بات پہنچی ہے ( وہ کیسے ہے ؟ ) تو انہوں نے کہا : سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ اس میں کوئی حرج نہ سمجھتے تھے حتیٰ کہ انہیں رافع بن خدیج ؓ سے ایک حدیث پہنچی تو وہ خود ان کے پاس گئے تو سیدنا رافع ؓ نے انہیں بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ بنو حارثہ کے ہاں تشریف لائے تو ظہیر کی زمین میں کھیتی دیکھی ۔ تو فرمایا ” ظہیر کی کھیتی کیا خوب عمدہ ہے ۔ “ لوگوں نے کہا : یہ ظہیر کی نہیں ہے ۔ آپ ﷺ نے کہا : ” کیا زمین ظہیر کی نہیں ؟ “ انہوں نے کہا : ہاں ‘ زمین تو اس کی ہے مگر فلاں نے کاشت کر رکھی ہے ۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا ” اپنی کھیتی لے لو اور اس کا خرچ اسے واپس کر دو ۔ “ سیدنا رافع ؓ کہتے ہیں : چنانچہ ہم نے اپنی کھیتی لے لی اور اس کا خرچ اسے ادا کر دیا ۔ سعید ( سعید بن مسیب ) نے کہا : اپنے بھائی کو عطیہ دے دو یا دراہم کے بدلے کرائے پر دے دو ۔
تشریح : یہ زمین جس طرح حضرت رافع نے حدیث 3392 میں خود بیان کیااسی ایک مروجہ کے طریق کے مطابق دی گئی تھی۔جس میں ناجائز شرطیں تھیں۔فریقین کے حصے واضح اور متعین نہ تھے۔اور لڑائی کا احتمال تھا۔اس لئے رسول اللہ ﷺ نےمزارعت کا یہ معاہدہ منسوخ کرنے کا حکم دیا۔ یہ زمین جس طرح حضرت رافع نے حدیث 3392 میں خود بیان کیااسی ایک مروجہ کے طریق کے مطابق دی گئی تھی۔جس میں ناجائز شرطیں تھیں۔فریقین کے حصے واضح اور متعین نہ تھے۔اور لڑائی کا احتمال تھا۔اس لئے رسول اللہ ﷺ نےمزارعت کا یہ معاہدہ منسوخ کرنے کا حکم دیا۔