Book - حدیث 3398

كِتَابُ الْبُيُوعِ بَابٌ فِي التَّشْدِيدِ فِي ذَلِكَ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ مُجَاهِدٍ أَنَّ أُسَيْدَ بْنَ ظُهَيْرٍ قَالَ جَاءَنَا رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَاكُمْ عَنْ أَمْرٍ كَانَ لَكُمْ نَافِعًا وَطَاعَةُ اللَّهِ وَطَاعَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْفَعُ لَكُمْ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَاكُمْ عَنْ الْحَقْلِ وَقَالَ مَنْ اسْتَغْنَى عَنْ أَرْضِهِ فَلْيَمْنَحْهَا أَخَاهُ أَوْ لِيَدَعْ قَالَ أَبُو دَاوُد وَهَكَذَا رَوَاهُ شُعْبَةُ وَمُفَضَّلُ بْنُ مُهَلْهَلٍ عَنْ مَنْصُورٍ قَالَ شُعْبَةُ أُسَيْدٌ ابْنُ أَخِي رَافِعِ بْنِ خَديِجٍ

ترجمہ Book - حدیث 3398

کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل باب: بٹائی کے ممنوع ہونے کا بیان جناب اسید بن ظہیر بیان کرتے ہیں کہ سیدنا رافع بن خدیج ؓ ہمارے پاس آئے اور کہا : رسول اللہ ﷺ تمہیں ایک کام سے منع فرماتے ہیں جو تمہارے لیے نفع آور تھا ۔ مگر اﷲ اور رسول کی اطاعت تمہارے لیے اس سے بڑھ کر نفع آور ہے ۔ بلاشبہ رسول اللہ ﷺ تمہیں بٹائی پر کاشت کاری سے منع فرماتے ہیں ۔ اور فرمایا ہے ” جو کوئی اپنی زمین سے مستغنی ہو تو چاہیئے کہ اپنے بھائی کو عطیہ دیدے یا ویسے ہی چھوڑ دے ۔ “ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ شعبہ اور مفضل بن مہلہل نے اسے منصور سے ایسے ہی روایت کیا ہے ۔ شعبہ نے کہا کہ اسید ‘ سیدنا رافع بن خدیج کے بھتیجے ہیں ۔
تشریح : علامہ شوکانی نیل الاوطار میں لکھتے ہیں۔کہ یہ حدیث مختصر روایت آئی ہے۔تفصیلی روایت میں اسید بن ظہیر کا کلام یوں ہے۔ ہم میں سے جب کوئی اپنی زمین کو خود کاشت نہ کرنا چاہتا۔یا اس کا ضرورت مند ہوتا تو وہ اسے آدھی تہائی یا چوتھائی پر بٹائی پر دے دیا کرتا تھا۔اور تین باتوں کی شرط ہوتی تھی۔ کے نالوں کے ساتھ ساتھ کی کاشت غلہ گاہنے کے بعد نیچے جو باقی رہے گا۔اور وہ قطعات جو نالوں سے سیرات ہوتے ہوں گے۔(مالک کے ہوں گے)الخ (نیل الاوطار 312/5 باب فسادالعقد اذاشرط احدھما لنفسہ التبن او بقعہ یعینھا ونحوہ)2۔ ویسے چھوڑ دینے کی صورت میں بھی بہت سے فائدے ہیں۔اس زمین میں اگنے والی گھاس جانورچرتے ہیں۔فطری پودے اور ان میں رہنے والے چھوٹے بڑے جانور ماحولیات کے تواز ن کو برقرار رکھتے ہیں۔ علامہ شوکانی نیل الاوطار میں لکھتے ہیں۔کہ یہ حدیث مختصر روایت آئی ہے۔تفصیلی روایت میں اسید بن ظہیر کا کلام یوں ہے۔ ہم میں سے جب کوئی اپنی زمین کو خود کاشت نہ کرنا چاہتا۔یا اس کا ضرورت مند ہوتا تو وہ اسے آدھی تہائی یا چوتھائی پر بٹائی پر دے دیا کرتا تھا۔اور تین باتوں کی شرط ہوتی تھی۔ کے نالوں کے ساتھ ساتھ کی کاشت غلہ گاہنے کے بعد نیچے جو باقی رہے گا۔اور وہ قطعات جو نالوں سے سیرات ہوتے ہوں گے۔(مالک کے ہوں گے)الخ (نیل الاوطار 312/5 باب فسادالعقد اذاشرط احدھما لنفسہ التبن او بقعہ یعینھا ونحوہ)2۔ ویسے چھوڑ دینے کی صورت میں بھی بہت سے فائدے ہیں۔اس زمین میں اگنے والی گھاس جانورچرتے ہیں۔فطری پودے اور ان میں رہنے والے چھوٹے بڑے جانور ماحولیات کے تواز ن کو برقرار رکھتے ہیں۔