Book - حدیث 3382

كِتَابُ الْبُيُوعِ بَابٌ فِي بَيْعِ الْمُضْطَرِّ ضعیف حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا صَالِحُ بْنُ عَامِرٍ قَالَ أَبُو دَاوُد كَذَا قَالَ مُحَمَّدٌ حَدَّثَنَا شَيْخٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ قَالَ خَطَبَنَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ أَوْ قَالَ قَالَ عَلِيٌّ قَالَ ابْنُ عِيسَى هَكَذَا حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ قَالَ سَيَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ عَضُوضٌ يَعَضُّ الْمُوسِرُ عَلَى مَا فِي يَدَيْهِ وَلَمْ يُؤْمَرْ بِذَلِكَ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى وَلَا تَنْسَوْا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ وَيُبَايِعُ الْمُضْطَرُّونَ وَقَدْ نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الْمُضْطَرِّ وَبَيْعِ الْغَرَرِ وَبَيْعِ الثَّمَرَةِ قَبْلَ أَنْ تُدْرِكَ

ترجمہ Book - حدیث 3382

کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل باب: مجبور ہو کر بیع کرنا سیدنا علی ؓ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا لوگوں پر ایسا وقت آئے گا جو کاٹ کھانے والا ہو گا ‘ صاحب وسعت ( صاحب مال ) اپنے مال کو اپنے دانتوں سے پکڑے ہو گا ( کہ صدقہ کرے گا نہ قرضہ دے گا بلکہ بخیل بنا رہے گا ) حالانکہ اسے اس بات کا حکم نہیں ۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے ” آپس میں احسان کرنے کو مت بھولو ۔ “ اور مجبور لوگ ( مجبوری کی وجہ سے ) بیع کریں گے حالانکہ نبی کریم ﷺ نے مجبوری کی بیع سے منع فرمایا ہے اور دھوکے کی بیع اور پھلوں کے تیار ہو جانے سے پہلے انہیں فروخت کر دینے سے منع فرمایا ہے ۔
تشریح : یہ روایت سندا ضعیف ہے۔تاہم مجبوری کی بیع دوطرح سے ہے۔کوئی ظالم کیس کو جبر واکراہ سے اپنی چیز فروخت کرنے پرمجبور کردےتو یہ بیع فاسد ہے۔انسان مقروض ہو اورقرضے کی ادایئگی کےلئے مجبور ااپنی لازمی ضرورت کی چیزیں اونے پونے داموں فروخت کرنے لگے۔یہ بیع ہوتوجاتی ہے۔مگر یہ بات آداب اسلامی کے خلاف ہے کہ اونے پونے ایسی چیزیں خریدی جایئں۔مقروض کو مہلت دی جانی چاہیے۔اور اس کے ساتھ حتیٰ الامکان تعاون کیاجاناچاہے۔جیسےکہ سورہ بقرہ آیت نمبر 237 میں آیا ہے۔البتہ مقروض زائد ضرورت چیزوں کوفروخت کردے تو کوئی حرج نیں اسی طرح حربی لوگوں کو بھی علی الاطلاق اپنی اشیاء بیچنے پرمجبور کرنا جائز نہیں تاہم اگر انہیں سزا دینا مقصود ہو تو سزا کی ایک صورت یہ ہوسکتی ہے۔کہ انہیں اپنی چیزیں بیچ کر نکل جانے کا حکم دے دیاجائے جس طرح بنو نضیر کے معاملے میں کیاگیا تھا۔ یہ روایت سندا ضعیف ہے۔تاہم مجبوری کی بیع دوطرح سے ہے۔کوئی ظالم کیس کو جبر واکراہ سے اپنی چیز فروخت کرنے پرمجبور کردےتو یہ بیع فاسد ہے۔انسان مقروض ہو اورقرضے کی ادایئگی کےلئے مجبور ااپنی لازمی ضرورت کی چیزیں اونے پونے داموں فروخت کرنے لگے۔یہ بیع ہوتوجاتی ہے۔مگر یہ بات آداب اسلامی کے خلاف ہے کہ اونے پونے ایسی چیزیں خریدی جایئں۔مقروض کو مہلت دی جانی چاہیے۔اور اس کے ساتھ حتیٰ الامکان تعاون کیاجاناچاہے۔جیسےکہ سورہ بقرہ آیت نمبر 237 میں آیا ہے۔البتہ مقروض زائد ضرورت چیزوں کوفروخت کردے تو کوئی حرج نیں اسی طرح حربی لوگوں کو بھی علی الاطلاق اپنی اشیاء بیچنے پرمجبور کرنا جائز نہیں تاہم اگر انہیں سزا دینا مقصود ہو تو سزا کی ایک صورت یہ ہوسکتی ہے۔کہ انہیں اپنی چیزیں بیچ کر نکل جانے کا حکم دے دیاجائے جس طرح بنو نضیر کے معاملے میں کیاگیا تھا۔