Book - حدیث 3350

كِتَابُ الْبُيُوعِ بَابٌ فِي الصَّرْفِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيِّ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ... بِهَذَا الْخَبَرِ، يَزِيدُ وَيَنْقُصُ، وَزَادَ: قَالَ: >فَإِذَا اخْتَلَفَتْ هَذِهِ الْأَصْنَافُ، فَبِيعُوا كَيْفَ شِئْتُمْ, إِذَا كَانَ يَدًا بِيَدٍ<.

ترجمہ Book - حدیث 3350

کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل باب: بیع صرف کا بیان ابواشعث صنعانی نے یہ حدیث بواسطہ سیدنا عبادہ بن صامت ؓ نبی کریم ﷺ سے کسی قدر کمی بیشی سے روایت کی ہے اور اضافہ یہ کیا : ” جب یہ انواع مختلف ہوں تو جیسے چاہو بیچو جبکہ معاملہ ہاتھوں ہاتھ ہو ۔ “
تشریح : 1۔ہم جنس اشیاء کی باہمی خریدوفروخت کے بارے میں اسلام ن جو ضابطہ دیا ہے اس کے حوالے سے آج کل یہ سوال پوچھا جاتا ہے۔کہ اگر ایک جنس مثلا کھجور۔بہتر قسم کی ہو۔اور دوسری گھٹیا کوالٹی کی ہو تو دونوں کو ہم مقدار رکھنا کیسے قرین انصاف ہوسکتا ہے؟یہ ایک اہم سوال ہے۔اسلام ہر صورت میں عدل وانصاف کو قائم رکھنا چاہتاہے۔اسی لئے ان اشیاء کی خریدوفروخت میں جو انسانی غذا کا بنیادی حصہ ہیں۔خصوصیت کے ساتھ عدل پرزور دیا ہے۔ 2۔ہرنوع کی کھجور یا گندم بنیادی طور پرانسان کی بھوک مٹاتی ہے۔اگر محض تنوع یا ذائقے میں فرق رکھنے کےلئے تبادلہ مقصود ہے تو بلاشک تبادلہ کرلو بھوک مٹانے میں دونوں برابر ہیں۔تبادلے میں دونوں کی مقدار برابر رکھو یہی انصاف کا تقاضا ہے۔ 3۔اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے۔کہ غذائی ضرورت پوری کرنے میں ایک نوع دوسری سے بہتر ہے مثلا یہ کہ ایک نوع کی نسبتاً کم مقدار دوسری نوع کی زیادہ مقدار کے برابر بھوک مٹاتی ہے۔ یا ایک کا ذائقہ اتنا بہتر ہے کہ دوسری نوع کی زیادہ مقدار پہلی نوع کے مقابلے میں ہونی چاہیےتو عام آدمی کے پاس ایسا کوئی آلہ کوئی ترازو موجود نہیں جو عدل وانصاف کے مطابق ایک کوالٹی کے دوسری کوالٹی سے تبادلے میں دونوں کی مقداریں صحیح طور پر متعین کرسکے۔اس لئے رسول اللہ ﷺ نے اس کا حل یہ عطا فرمایا کہ گھٹیا کوالٹی کی نقدی کے ذریعے سے قیمت طے کرلو اور اسے نقدی کے عوض بیچ دواسی طرح اعلیٰ کوالٹی کی قیمت بھی بذریعہ نقدی طے کرلو اور اسے نقدی کے عوض خرید لو اس طرح عد ل وانصاف کے تقاضے صحیح معنی میں پورے ہوجایئں گے۔کوالٹی کافرق کتنا ہے اس کو زن یا ماپ کے زریعے سے متعین نہیں کیا جاسکتا۔قیمت کے زریعے سے متعین کیا جاسکتاہے۔کوالٹی کے تعین کےلئے قیمت میں ایک ہی جانبدار او مناسب ترین زریعہ ہے۔ 4۔اگر قیمت کا طریقہ اختیار نہ کیا جائے۔محض وزن میں کمی زیادتی کے زریعے سے کام چلانے کی کوشش کی جائے تو دونوں میں سے کسی ایک فریق کاحق مارا جائے گا۔کوالٹی کا فرق متعین کرنے کےلئے وزن کو معیار بنایاجائے۔تو تراضی یا باہمی رضا مندی کے تقاضے بھی پورے نہیں ہوتے ا سی لئے بیع جائز نہیں ہوسکتی۔ 5۔اس سلسلے میں ایک اور سوال کافی عرصے سے زیر بحث چلا آرہا ہے کہ برابری دست بدست تبادلے کی شرط محض ان چھ اشیاء کی خریدوفروخت میں ہے۔یا ان جیسی دوسری اشیاء کی بیع کےلئے بھی ہے۔ ظاہری(وہ لوگ جو قرآن یا حدیث کے ظاہری معنی تک محدودرہتے ہیں۔)حدیث میں مذکور محض ان چھ اشیاء کےلئے اس حکم کو محدود رکھتے ہیں۔باقی اشیاء میں اگر ہم جنس کا تبادلہ کمی بیشی سے ہویا ادھار تو اسے ربوالفضل قرار نہیں دیتے۔لیکن باقی تمام مکاتب فکردوسری اشیاء کو بھی ان پر قیاس کرتے ہیں۔اور یہی درست نقطہ نظرہے۔ 6۔پاکستان اور ارد گرد کے ملکوں میں جس طرح گندم بنیادی غذائی جنس ہے۔اس طرح مشرق بعید (ملائشیا۔انڈونیشیا۔جاپان کوریا وغیرہ) میں چاول خورا ک کا بنیادی حصہ (سٹیپل فوڈ) ہے عرب اور ارد گرد کے ممالک میں جو حیثیت کھجور کی ہے۔ پاکستان کے شمالی حصوں بلتستان وغیر ہ میں وہی حیثیت خوبانی کی او بحیرہ روم کے علاقوں میں کشمش کی ہے۔اس لئے ان اشیاء کو گندم جو اور کھجور پر قیاس کرناچاہیے۔ 7۔قیاس کی بنیادی وجہ (علت قیاس) کے بارے میں البتہ مختلف مکاتب فکر میں اختلاف ہے امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک سوناچاندی (نقدین) پر جن کے لین دین کا دارومدار وزن پر ہے۔ کسی اور چیز کو قیاس نہیں کیا جاسکتا ۔ البتہ باقی چار چیزوں پر قیاس ضروری ہے۔ 8۔ امام املک کے نزدیک جو چیزیں غذا کابنیادی حصہ ہیں۔ اور ان کا ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔ان میں اگر ایک جنس کا تبادلہ اسی جنس سے کیا جارہاہے۔ تو انہیں حدیث میں مذکور چار غذائی اشیاء پرقیاس کیاجائےگا۔اور ان کاسودا نقداور برابر کرنا ہوگا۔ امام شافعی مطلقا تمام غذائی اجناس کو ان چار پر قیاس کرتے ہیں۔ 9۔ احناف کے ہاں حدیث میں چھ کی چھ اشیاء میں بنیادی وجہ قیاس یہ ہے کہ ان کا لین دین ناپ تول کے زریعے سے ہوتا ہے۔ان کےنزدیک ہر وہ شے جو ناپ کر یا تول کر بیچی جاتی ہے۔اس کا حکم وہی ہوگا جو حدیث میں چھ اشیاء کے بارے میں بیان کیا گیا ہے۔ 10۔امام شوکانی کہتے ہیں۔کہ تمام علمائے اہل بیت کی رائے یہی ہے اور امام ابو حنیفہ نے اپنا مسلک انہیں سے لیا ہے۔(نیل لاوطار۔کتاب البیوع۔باب مایجری فیہ الریا) 11۔اما م مالک کے مسلک میں سب سے زیادہ وسعت اور آسانی پائی جاتی ہے۔ یعنی سونا چاندی یا کرنسی کے علاوہ ان اشیاء کو حدیث میں زکر کردہ چار اشیاء پر قیاس کرناچاہیے۔جو کسی جگہ انسانی غذا کا بنیادی حصہ ہوں۔رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں عرب میں بہت سی اشیاء موجود تھیں۔ جن کا لین دین ناپ اور تول کے زریعے سے ہوتا تھا۔ آپ نے صرف ان چار اشیاء کا نام لیا ہے۔جو اس معاشرے کی بنیادی غذا تھیں۔لیکن آپ نے ان میں سے کسی اور چیز کو ان چار چیزوں کے ساتھ شامل نہیں فرمایا۔ 12۔حدیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے انواع مختلف ہونے کی تفصیل بیان فرمادی ہے۔ چاندی کے بدلے سونا جو کے بدلے گندم وغیرہ فروخت کی جائے۔تو کمی بیشی جائز ہے۔ ادھار جائز نہیں۔3۔مدی (میم پرپیش اور دال ساکن ہے)علاقہ شام اور مصر میں مروج غلہ ناپنے کا ایک پیمانہ ہے جس میں 5ء22صاع آتے ہیں۔ 1۔ہم جنس اشیاء کی باہمی خریدوفروخت کے بارے میں اسلام ن جو ضابطہ دیا ہے اس کے حوالے سے آج کل یہ سوال پوچھا جاتا ہے۔کہ اگر ایک جنس مثلا کھجور۔بہتر قسم کی ہو۔اور دوسری گھٹیا کوالٹی کی ہو تو دونوں کو ہم مقدار رکھنا کیسے قرین انصاف ہوسکتا ہے؟یہ ایک اہم سوال ہے۔اسلام ہر صورت میں عدل وانصاف کو قائم رکھنا چاہتاہے۔اسی لئے ان اشیاء کی خریدوفروخت میں جو انسانی غذا کا بنیادی حصہ ہیں۔خصوصیت کے ساتھ عدل پرزور دیا ہے۔ 2۔ہرنوع کی کھجور یا گندم بنیادی طور پرانسان کی بھوک مٹاتی ہے۔اگر محض تنوع یا ذائقے میں فرق رکھنے کےلئے تبادلہ مقصود ہے تو بلاشک تبادلہ کرلو بھوک مٹانے میں دونوں برابر ہیں۔تبادلے میں دونوں کی مقدار برابر رکھو یہی انصاف کا تقاضا ہے۔ 3۔اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے۔کہ غذائی ضرورت پوری کرنے میں ایک نوع دوسری سے بہتر ہے مثلا یہ کہ ایک نوع کی نسبتاً کم مقدار دوسری نوع کی زیادہ مقدار کے برابر بھوک مٹاتی ہے۔ یا ایک کا ذائقہ اتنا بہتر ہے کہ دوسری نوع کی زیادہ مقدار پہلی نوع کے مقابلے میں ہونی چاہیےتو عام آدمی کے پاس ایسا کوئی آلہ کوئی ترازو موجود نہیں جو عدل وانصاف کے مطابق ایک کوالٹی کے دوسری کوالٹی سے تبادلے میں دونوں کی مقداریں صحیح طور پر متعین کرسکے۔اس لئے رسول اللہ ﷺ نے اس کا حل یہ عطا فرمایا کہ گھٹیا کوالٹی کی نقدی کے ذریعے سے قیمت طے کرلو اور اسے نقدی کے عوض بیچ دواسی طرح اعلیٰ کوالٹی کی قیمت بھی بذریعہ نقدی طے کرلو اور اسے نقدی کے عوض خرید لو اس طرح عد ل وانصاف کے تقاضے صحیح معنی میں پورے ہوجایئں گے۔کوالٹی کافرق کتنا ہے اس کو زن یا ماپ کے زریعے سے متعین نہیں کیا جاسکتا۔قیمت کے زریعے سے متعین کیا جاسکتاہے۔کوالٹی کے تعین کےلئے قیمت میں ایک ہی جانبدار او مناسب ترین زریعہ ہے۔ 4۔اگر قیمت کا طریقہ اختیار نہ کیا جائے۔محض وزن میں کمی زیادتی کے زریعے سے کام چلانے کی کوشش کی جائے تو دونوں میں سے کسی ایک فریق کاحق مارا جائے گا۔کوالٹی کا فرق متعین کرنے کےلئے وزن کو معیار بنایاجائے۔تو تراضی یا باہمی رضا مندی کے تقاضے بھی پورے نہیں ہوتے ا سی لئے بیع جائز نہیں ہوسکتی۔ 5۔اس سلسلے میں ایک اور سوال کافی عرصے سے زیر بحث چلا آرہا ہے کہ برابری دست بدست تبادلے کی شرط محض ان چھ اشیاء کی خریدوفروخت میں ہے۔یا ان جیسی دوسری اشیاء کی بیع کےلئے بھی ہے۔ ظاہری(وہ لوگ جو قرآن یا حدیث کے ظاہری معنی تک محدودرہتے ہیں۔)حدیث میں مذکور محض ان چھ اشیاء کےلئے اس حکم کو محدود رکھتے ہیں۔باقی اشیاء میں اگر ہم جنس کا تبادلہ کمی بیشی سے ہویا ادھار تو اسے ربوالفضل قرار نہیں دیتے۔لیکن باقی تمام مکاتب فکردوسری اشیاء کو بھی ان پر قیاس کرتے ہیں۔اور یہی درست نقطہ نظرہے۔ 6۔پاکستان اور ارد گرد کے ملکوں میں جس طرح گندم بنیادی غذائی جنس ہے۔اس طرح مشرق بعید (ملائشیا۔انڈونیشیا۔جاپان کوریا وغیرہ) میں چاول خورا ک کا بنیادی حصہ (سٹیپل فوڈ) ہے عرب اور ارد گرد کے ممالک میں جو حیثیت کھجور کی ہے۔ پاکستان کے شمالی حصوں بلتستان وغیر ہ میں وہی حیثیت خوبانی کی او بحیرہ روم کے علاقوں میں کشمش کی ہے۔اس لئے ان اشیاء کو گندم جو اور کھجور پر قیاس کرناچاہیے۔ 7۔قیاس کی بنیادی وجہ (علت قیاس) کے بارے میں البتہ مختلف مکاتب فکر میں اختلاف ہے امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک سوناچاندی (نقدین) پر جن کے لین دین کا دارومدار وزن پر ہے۔ کسی اور چیز کو قیاس نہیں کیا جاسکتا ۔ البتہ باقی چار چیزوں پر قیاس ضروری ہے۔ 8۔ امام املک کے نزدیک جو چیزیں غذا کابنیادی حصہ ہیں۔ اور ان کا ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔ان میں اگر ایک جنس کا تبادلہ اسی جنس سے کیا جارہاہے۔ تو انہیں حدیث میں مذکور چار غذائی اشیاء پرقیاس کیاجائےگا۔اور ان کاسودا نقداور برابر کرنا ہوگا۔ امام شافعی مطلقا تمام غذائی اجناس کو ان چار پر قیاس کرتے ہیں۔ 9۔ احناف کے ہاں حدیث میں چھ کی چھ اشیاء میں بنیادی وجہ قیاس یہ ہے کہ ان کا لین دین ناپ تول کے زریعے سے ہوتا ہے۔ان کےنزدیک ہر وہ شے جو ناپ کر یا تول کر بیچی جاتی ہے۔اس کا حکم وہی ہوگا جو حدیث میں چھ اشیاء کے بارے میں بیان کیا گیا ہے۔ 10۔امام شوکانی کہتے ہیں۔کہ تمام علمائے اہل بیت کی رائے یہی ہے اور امام ابو حنیفہ نے اپنا مسلک انہیں سے لیا ہے۔(نیل لاوطار۔کتاب البیوع۔باب مایجری فیہ الریا) 11۔اما م مالک کے مسلک میں سب سے زیادہ وسعت اور آسانی پائی جاتی ہے۔ یعنی سونا چاندی یا کرنسی کے علاوہ ان اشیاء کو حدیث میں زکر کردہ چار اشیاء پر قیاس کرناچاہیے۔جو کسی جگہ انسانی غذا کا بنیادی حصہ ہوں۔رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں عرب میں بہت سی اشیاء موجود تھیں۔ جن کا لین دین ناپ اور تول کے زریعے سے ہوتا تھا۔ آپ نے صرف ان چار اشیاء کا نام لیا ہے۔جو اس معاشرے کی بنیادی غذا تھیں۔لیکن آپ نے ان میں سے کسی اور چیز کو ان چار چیزوں کے ساتھ شامل نہیں فرمایا۔ 12۔حدیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے انواع مختلف ہونے کی تفصیل بیان فرمادی ہے۔ چاندی کے بدلے سونا جو کے بدلے گندم وغیرہ فروخت کی جائے۔تو کمی بیشی جائز ہے۔ ادھار جائز نہیں۔3۔مدی (میم پرپیش اور دال ساکن ہے)علاقہ شام اور مصر میں مروج غلہ ناپنے کا ایک پیمانہ ہے جس میں 5ء22صاع آتے ہیں۔