Book - حدیث 3312

كِتَابُ الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ بَابُ مَا يُؤْمَرُ بِهِ مِنْ الْوَفَاءِ بِالنَّذْرِ حسن حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ عُبَيْدٍ أَبُو قُدَامَةَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَخْنَسِ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي نَذَرْتُ أَنْ أَضْرِبَ عَلَى رَأْسِكَ بِالدُّفِّ قَالَ أَوْفِي بِنَذْرِكِ قَالَتْ إِنِّي نَذَرْتُ أَنْ أَذْبَحَ بِمَكَانِ كَذَا وَكَذَا مَكَانٌ كَانَ يَذْبَحُ فِيهِ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ قَالَ لِصَنَمٍ قَالَتْ لَا قَالَ لِوَثَنٍ قَالَتْ لَا قَالَ أَوْفِي بِنَذْرِكِ

ترجمہ Book - حدیث 3312

کتاب: قسم کھانے اور نذر کے احکام و مسائل باب: نذر پوری کرنے کا حکم جناب عمرو بن شعیب اپنے والد سے ‘ وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آئی اور کہنے لگی : اے اللہ کے رسول ! میں نے نذر مان رکھی ہے کہ میں آپ کے سر کے پاس دف بجاؤں گی ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ” اپنی نذر پوری کر لے ۔ “ اس نے کہا : میں نے نذر مانی ہے کہ فلاں فلاں جگہ جانور ذبح کروں گی ‘ جہاں کہ اہل جاہلیت ذبح کیا کرتے تھے ۔ آپ ﷺ نے پوچھا ” کیا وہاں کوئی مورتی تھی جس کے لیے وہ ذبح کرتے تھے ؟ “ اس نے کہا : نہیں ۔ آپ ﷺ نے پوچھا ” تو کیا کوئی بت تھا جس کے لیے ذبح کرتے تھے ؟ “ اس نے کہا : نہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ” اپنی نذر پوری کر لے ۔ “
تشریح : 1۔آلات موسیقی میں سے صرف دف ہی ایسی چیز ہے جسے اسلام نے خوشی کے موقع پر بجانے کی اجازت ہے۔ اور رسول اللہ ﷺکی جہاد سے خیر وسلامتی کے ساتھ تشریف آوری سب خوشیوں سے بڑھ کرخوشی تھی۔مگرآپﷺ کی حیات مبارکہ میں دورجدید کی بدعی رسم جشن میلاد کو اس سے ملانا بہت بڑا جرم ہوگا۔2۔اگر کسی خیر کے کام میں مشرکین ومبتدعین کے ساتھ کوئی مشابہت و موافقت ہورہی ہو۔ جس میں ان کے اعمال کفر وشرک اور بدعت کی تایئد نہ ہو۔تو اس عمل خیر پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔جیسے کہ درج زیل حدیث میں بھی آرہا ہے۔3۔ وثن اور صنم میں ایک فرق یہ ہے کہ صنم ایسے بت کوکہتے ہیں کہ جو مورتی ہو۔ یعنی انسائی جثے سے مشابہ ہو اور وثن بت کو بھی کہتے ہیں۔ اور بتوں جیسے مشرکانہ اڈوں کو بھی جیسے درسگاہ آستانے اور مقابر وغیرہ۔ 1۔آلات موسیقی میں سے صرف دف ہی ایسی چیز ہے جسے اسلام نے خوشی کے موقع پر بجانے کی اجازت ہے۔ اور رسول اللہ ﷺکی جہاد سے خیر وسلامتی کے ساتھ تشریف آوری سب خوشیوں سے بڑھ کرخوشی تھی۔مگرآپﷺ کی حیات مبارکہ میں دورجدید کی بدعی رسم جشن میلاد کو اس سے ملانا بہت بڑا جرم ہوگا۔2۔اگر کسی خیر کے کام میں مشرکین ومبتدعین کے ساتھ کوئی مشابہت و موافقت ہورہی ہو۔ جس میں ان کے اعمال کفر وشرک اور بدعت کی تایئد نہ ہو۔تو اس عمل خیر پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔جیسے کہ درج زیل حدیث میں بھی آرہا ہے۔3۔ وثن اور صنم میں ایک فرق یہ ہے کہ صنم ایسے بت کوکہتے ہیں کہ جو مورتی ہو۔ یعنی انسائی جثے سے مشابہ ہو اور وثن بت کو بھی کہتے ہیں۔ اور بتوں جیسے مشرکانہ اڈوں کو بھی جیسے درسگاہ آستانے اور مقابر وغیرہ۔