كِتَابُ الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ بَابُ النَّهْيِ عَنْ النُّذُورِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ قُرِئَ عَلَى الْحَارِثِ بْنِ مِسْكِينٍ وَأَنَا شَاهِدٌ أَخْبَرَكُمْ ابْنُ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي مَالِكٌ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هُرْمُزَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يَأْتِي ابْنَ آدَمَ النَّذْرُ الْقَدَرَ بِشَيْءٍ لَمْ أَكُنْ قَدَّرْتُهُ لَهُ وَلَكِنْ يُلْقِيهِ النَّذْرُ الْقَدَرَ قَدَّرْتُهُ يُسْتَخْرَجُ مِنْ الْبَخِيلِ يُؤْتِي عَلَيْهِ مَا لَمْ يَكُنْ يُؤْتِي مِنْ قَبْلُ
کتاب: قسم کھانے اور نذر کے احکام و مسائل
باب: نذر ماننا ناپسندیدہ ہے
سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” ( اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ) نذر ابن آدم کی تقدیر میں ‘ جسے میں نے پہلے سے مقدر نہ کیا ہو ‘ کوئی تبدیلی نہیں لاتی ‘ بلکہ یہ تقدیر ہی میں سے ہوتا ہے کہ انسان نذر مان لیتا ہے جس کے ذریعے سے بخیل سے کچھ نکالا جاتا ہے اور وہ کچھ کروایا جاتا ہے جو وہ اس سے پہلے نہیں کر رہا ہوتا ۔ “
تشریح :
نذر ماننا اس معنی میں منع ہے۔جیسے کہ جہلا ء سمجھتے ہیں۔کہ اس سے فوری طور پرکوئی فائدہ ہوگا۔یا کسی نقصان سے بچائو ہوجائے گا۔ ورنہ مطلقا ً اللہ کا قرب حاصل کرنےکےلئے کسی عبادت کو اپنے اوپر لازم کرلینا مشروع ہے۔ اور پھر اس کا پورا کرنا بھی واجب ہے۔اوراسی کو نذر کہاجاتاہے۔
نذر ماننا اس معنی میں منع ہے۔جیسے کہ جہلا ء سمجھتے ہیں۔کہ اس سے فوری طور پرکوئی فائدہ ہوگا۔یا کسی نقصان سے بچائو ہوجائے گا۔ ورنہ مطلقا ً اللہ کا قرب حاصل کرنےکےلئے کسی عبادت کو اپنے اوپر لازم کرلینا مشروع ہے۔ اور پھر اس کا پورا کرنا بھی واجب ہے۔اوراسی کو نذر کہاجاتاہے۔