Book - حدیث 3275

كِتَابُ الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ بَابٌ فِيمَنْ يَحْلِفُ كَاذِبًا مُتَعَمِّدًا صحیح حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ أَخْبَرَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ عَنْ أَبِي يَحْيَى عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَجُلَيْنِ اخْتَصَمَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الطَّالِبَ الْبَيِّنَةَ فَلَمْ تَكُنْ لَهُ بَيِّنَةٌ فَاسْتَحْلَفَ الْمَطْلُوبَ فَحَلَفَ بِاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَلَى قَدْ فَعَلْتَ وَلَكِنْ قَدْ غُفِرَ لَكَ بِإِخْلَاصِ قَوْلِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ قَالَ أَبُو دَاوُد يُرَادُ مِنْ هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّهُ لَمْ يَأْمُرْهُ بِالْكَفَّارَةِ

ترجمہ Book - حدیث 3275

کتاب: قسم کھانے اور نذر کے احکام و مسائل باب: جو شخص عمداً جھوٹی قسم کھائے سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ دو شخص اپنا جھگڑا نبی کریم ﷺ کے پاس لے کر آئے ‘ تو نبی کریم ﷺ نے مدعی سے گواہ طلب کیے تو اس کے پاس گواہ نہیں تھے ۔ تب آپ ﷺ نے مدعا علیہ سے قسم طلب کی تو اس نے کہا : ” قسم ہے اللہ کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں ! ( میں نے یہ کام نہیں کیا ہے جو مدعی کہتا ہے ۔ ) تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” کیوں نہیں ، تحقیق تو نے یہ کیا ہے ‘ لیکن اللہ نے تجھے اخلاص کے ساتھ «لا إله إلا الله» کہنے کی وجہ سے بخش دیا ہے ۔ “ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ آپ ﷺ نے اسے ( جھوٹی قسم کھانے پر ) کفارہ ادا کرنے کا حکم نہیں دیا ۔
تشریح : 1۔جھوٹی قسم کو یمین غموس کہا جاتاہے۔یعنی انسان کوگناہ اورہلاکت میں ڈبو دینے والی یہ کبائر میں شمار ہے اور اس کا کوئی مالی کفارہ نہیں۔دین اور آخرت کا عقاب بہت بڑی سزا ہے۔البتہ تو بہ وندامت اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا عزم ہی اس کا کفارہ ہے۔2۔اس خاص واقعہ کی بنیاد پر کسی مسلمان کو جھوٹی قسم کھانے کی جراءت نہیں کرنی چاہیے۔3۔نبی کریمﷺ کووحی کے زریعے یہ علم ہوا کہ اس نے جھوٹی قسم کھائی ہے۔اس لئے آپ ﷺ نے پورے یقین کے ساتھ اس کے جھوٹے ہونے کا زکر کیا ہے۔علاوہ ازیں ا س کی تلافی کابیان بھی فرمایا۔ 1۔جھوٹی قسم کو یمین غموس کہا جاتاہے۔یعنی انسان کوگناہ اورہلاکت میں ڈبو دینے والی یہ کبائر میں شمار ہے اور اس کا کوئی مالی کفارہ نہیں۔دین اور آخرت کا عقاب بہت بڑی سزا ہے۔البتہ تو بہ وندامت اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا عزم ہی اس کا کفارہ ہے۔2۔اس خاص واقعہ کی بنیاد پر کسی مسلمان کو جھوٹی قسم کھانے کی جراءت نہیں کرنی چاہیے۔3۔نبی کریمﷺ کووحی کے زریعے یہ علم ہوا کہ اس نے جھوٹی قسم کھائی ہے۔اس لئے آپ ﷺ نے پورے یقین کے ساتھ اس کے جھوٹے ہونے کا زکر کیا ہے۔علاوہ ازیں ا س کی تلافی کابیان بھی فرمایا۔