كِتَابُ الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ بَابٌ فِيمَنْ حَلَفَ يَمِينًا لِيَقْتَطِعَ بِهَا مَالًا لِأَحَدٍ صحیح حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ سِمَاكٍ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ الْحَضْرَمِيِّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ مِنْ حَضْرَمَوْتَ وَرَجُلٌ مِنْ كِنْدَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ الْحَضْرَمِيُّ يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ هَذَا غَلَبَنِي عَلَى أَرْضٍ كَانَتْ لِأَبِي فَقَالَ الْكِنْدِيُّ هِيَ أَرْضِي فِي يَدِي أَزْرَعُهَا لَيْسَ لَهُ فِيهَا حَقٌّ قَالَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْحَضْرَمِيِّ أَلَكَ بَيِّنَةٌ قَالَ لَا قَالَ فَلَكَ يَمِينُهُ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ فَاجِرٌ لَا يُبَالِي مَا حَلَفَ عَلَيْهِ لَيْسَ يَتَوَرَّعُ مِنْ شَيْءٍ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ لَكَ مِنْهُ إِلَّا ذَاكَ فَانْطَلَقَ لِيَحْلِفَ لَهُ فَلَمَّا أَدْبَرَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَا لَئِنْ حَلَفَ عَلَى مَالٍ لِيَأْكُلَهُ ظَالِمًا لَيَلْقَيَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَهُوَ عَنْهُ مُعْرِضٌ
کتاب: قسم کھانے اور نذر کے احکام و مسائل
باب: جو شخص کسی کا مال مار لینے کے لیے قسم کھائے
جناب علقمہ بن وائل بن حجر حضری اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضر موت اور ( قبیلہ کندہ ) کندہ کے دو آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے تو حضرمی نے کہا : اے اللہ کے رسول ! یہ شخص میرے باپ کی زمین پر قابض ہو گیا ہے ۔ کندی نے کہا : یہ میری زمین ہے ، میرے قبضے میں ہے ، میں ہی اسے کاشت کرتا ہوں اور اس کا اس میں کوئی حق نہیں ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے حضرمی سے کہا : ” کیا تیرے پاس گواہ ہیں ؟ ” اس نے کہا : نہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ” تو تمہیں اس کی قسم قبول کرنی ہو گی ۔ “ اس نے کہا : اے اللہ کے رسول ! یہ فاجر آدمی ہے ، اسے کوئی پروا نہیں کہ کیا قسم کھا رہا ہے ، یہ کسی چیز سے پرہیز نہیں کرتا ، تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” تمہارے لیے اس کی طرف سے بس یہی ہے ” کہ وہ قسم کھائے ۔ “ چنانچہ وہ قسم کھانے کے لیے تیار ہو گیا ۔ جب اس نے پشت پھیری تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” اگر اس نے قسم کھا لی کہ ظلم سے مال کھا لے تو یہ اللہ سے ملے گا اس حال میں کہ وہ اس سے رخ پھیرے ہوئے ہو گا ۔ “
تشریح :
1۔کسی مقدمہ کے طرفین جس میں کسی صالح کے متعلق گمان ہو کہ سچ کہنا ہوگا۔اورکسی فاسق کے متعلق یہ وہم ہو کہ یہ جھوٹا ہوگا۔قاضی کے رو برو برابر ہوتے ہیں۔ ان کا فیصلہ شرعی اصولوں کے تحت ہی ہوگا۔کہ مدعی گواہ پیش کرے۔یا مدعا علیہ قسم کھائے۔(خطابی)2۔کسی تنازع (جھگڑے ) میں طرفین کا ایک دوسرے کو جھوٹ خیانت یا ظلم وغیرہ سے مہتم کرنا ایسی باتیں ہوتی ہیں۔کہ ان کے متعلق کوئی دعویٰ قبول نہیں کیا جاسکتا۔(خطابی)3۔مدعا علیہ کسی بھی دین وملت سے تعلق رکھتا ہو اس سے قسم لی جائے گی جو تسلیم ہوگی۔4۔جھوٹی قسم کا عتاب انتہائی شدید ہے۔
1۔کسی مقدمہ کے طرفین جس میں کسی صالح کے متعلق گمان ہو کہ سچ کہنا ہوگا۔اورکسی فاسق کے متعلق یہ وہم ہو کہ یہ جھوٹا ہوگا۔قاضی کے رو برو برابر ہوتے ہیں۔ ان کا فیصلہ شرعی اصولوں کے تحت ہی ہوگا۔کہ مدعی گواہ پیش کرے۔یا مدعا علیہ قسم کھائے۔(خطابی)2۔کسی تنازع (جھگڑے ) میں طرفین کا ایک دوسرے کو جھوٹ خیانت یا ظلم وغیرہ سے مہتم کرنا ایسی باتیں ہوتی ہیں۔کہ ان کے متعلق کوئی دعویٰ قبول نہیں کیا جاسکتا۔(خطابی)3۔مدعا علیہ کسی بھی دین وملت سے تعلق رکھتا ہو اس سے قسم لی جائے گی جو تسلیم ہوگی۔4۔جھوٹی قسم کا عتاب انتہائی شدید ہے۔