Book - حدیث 3180

كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ الْمَشْيِ أَمَامَ الْجَنَازَةِ صحیح حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ عَنْ خَالِدٍ عَنْ يُونُسَ عَنْ زِيَادِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ وَأَحْسَبُ أَنَّ أَهْلَ زِيَادٍ أَخْبَرُونِي أَنَّهُ رَفَعَهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الرَّاكِبُ يَسِيرُ خَلْفَ الْجَنَازَةِ وَالْمَاشِي يَمْشِي خَلْفَهَا وَأَمَامَهَا وَعَنْ يَمِينِهَا وَعَنْ يَسَارِهَا قَرِيبًا مِنْهَا وَالسِّقْطُ يُصَلَّى عَلَيْهِ وَيُدْعَى لِوَالِدَيْهِ بِالْمَغْفِرَةِ وَالرَّحْمَةِ

ترجمہ Book - حدیث 3180

کتاب: جنازے کے احکام و مسائل باب: جنازے کے آگے آگے چلنا سیدنا مغیرہ بن شعبہ ؓ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا ” سوار آدمی جنازہ کے پیچھے چلے اور پیدل لوگ اس کے پیچھے ، آگے ، دائیں اور بائیں اس کے قریب قریب چلیں ، اور بچہ جو ناقص پیدا ہو اس کی بھی نماز جنازہ پڑھی جائے اور اس کے ماں باپ کے لیے مغفرت اور رحمت کی دعا کی جائے ۔“
تشریح : 1۔(السقط (سین پر تینوں حرکات کے ساتھ)اس سے مراد نا تمام بچہ ہے۔2۔نا تمام پیدا ہونے والے بچے کی نماز جنازہ ادا کرنے کی بابت اختلاف ہے۔حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ بچہ اگر زندگی کی علامت کے ساتھ پیدا نہ ہو و بھی اس کی نمازجنازہ پڑھی جائےگی۔ یہی قول ابن سیرین اور ابن مسنیب کا ہے۔امام احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے کہ اگر اس پر چار مہینے دس دن گزر چکے ہوں۔اور اس میں روح پھونک دی گئی ہو۔تو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائےگی۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاقول ہے کہ جب پیدا ہو۔ اور علامت زندگی موجود ہوتو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائےگی۔حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اتنا مذید کہا ہے کہ اگر زندگی کی علامت نہ ہوتو نماز جنازہ نہیں پرھی جائے گی۔اس کے قائل۔امام ابو حنیفہ۔امام مالک۔اوزاعی۔اورشافعی ہیں۔واللہ اعلم با لصواب۔(عون المعبود)شیخ البانی نے امام احمد بن حنبل ؒ اور اسحاق بن راہویہ کے قول کو راحج قرار دیا ہے۔ 1۔(السقط (سین پر تینوں حرکات کے ساتھ)اس سے مراد نا تمام بچہ ہے۔2۔نا تمام پیدا ہونے والے بچے کی نماز جنازہ ادا کرنے کی بابت اختلاف ہے۔حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ بچہ اگر زندگی کی علامت کے ساتھ پیدا نہ ہو و بھی اس کی نمازجنازہ پڑھی جائےگی۔ یہی قول ابن سیرین اور ابن مسنیب کا ہے۔امام احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے کہ اگر اس پر چار مہینے دس دن گزر چکے ہوں۔اور اس میں روح پھونک دی گئی ہو۔تو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائےگی۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاقول ہے کہ جب پیدا ہو۔ اور علامت زندگی موجود ہوتو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائےگی۔حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اتنا مذید کہا ہے کہ اگر زندگی کی علامت نہ ہوتو نماز جنازہ نہیں پرھی جائے گی۔اس کے قائل۔امام ابو حنیفہ۔امام مالک۔اوزاعی۔اورشافعی ہیں۔واللہ اعلم با لصواب۔(عون المعبود)شیخ البانی نے امام احمد بن حنبل ؒ اور اسحاق بن راہویہ کے قول کو راحج قرار دیا ہے۔