Book - حدیث 3132

كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ صَنْعَةِ الطَّعَامِ لِأَهْلِ الْمَيِّتِ حسن حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنِي جَعْفَرُ بْنُ خَالِدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اصْنَعُوا لِآلِ جَعْفَرٍ طَعَامًا فَإِنَّهُ قَدْ أَتَاهُمْ أَمْرٌ شَغَلَهُمْ

ترجمہ Book - حدیث 3132

کتاب: جنازے کے احکام و مسائل باب: اہل میت کے لیے کھانا تیار کرنا سیدنا عبداللہ بن جعفر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا ” آل جعفر کے لیے کھانا تیار کرو بلاشبہ انہیں ایک ایسا معاملہ درپیش ہے جس نے انہیں مشغول کر دیا ہے ۔ “ ( ان کے پاس سیدنا جعفر ؓ کی شہادت کی خبر آئی تھی ۔ )
تشریح : اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کچھ لوگ کہتے ہیں۔کہ اہل میت کے گھر میں تین دن تک کھانا پکانا جائز نہیں۔لیکن نبی کریمﷺ کا یہ فرمان تو عین وقت کےلئے تھا۔اسے تین دن تک لمبا کرنا تو شرعا صحیح معلوم نہیں ہوتا۔علاوہ ازیں اس سے اصل مقصود اہل میت سے اظہار ہمدردی تھا۔محض کھانا پکانے کی ممانعت نہیں۔اس لئے اس سے استدلال کرکے اہل میت کے گھر کھانا پکانے کو یکسر ممنوع قرار دینا بھی صحیح نہیں۔البتہ ایک ااور رواج جوعام ہوگیا ہے۔شرعا محل نظر ہے۔اور وہ ہے جنازے میں شریک ہونے والوں کے لئے کھانا پکانا او دعوت عام کا اہتمام کرنا۔جنازے میں شریک ہونے والے دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ایک تو قریبی اعزہ۔جو دوردراز کے علاقوں میں ـ(مختلف شہروں) سےآتے ہیں۔وہ فورا ً واپس نہیں جاسکتے۔ اور میت سے خصوصی تعلق کی وجہ سے ان کا فورا واپس چلے جانا مناسب بھی نہیں ہوتا۔دوسری قسم کے لوگ جو تعداد میں عام طور پر قریبی اعزہ سے زیادہ ہوتے ہیں۔جو دوست احباب اہل محلہ واہل مسلک پر مشتمل ہوتے ہیں۔ان کی شرکت نماز جنازہ یا زیادہ سے زیادہ تدفین تک ہوتی ہے۔اس کے بعد یہ اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ اول الزکر قسم کے لوگوں کے لئے کھانا تیارکرنا تو یقینا جائز ہے۔کیوکہ وہ میت کے نہایت قریبی ہوتے ہیں۔اور ان کا قیام بھی اہل میت کے پاس ہوتا ہے۔لیکن ثانی الذکر لوگوں کےلئے بھی کھانا تیار کرنا ان کو دعوتوں کی طرح کھانا کھلانا یا انہیں کھانے پر مجبور کرنا یا دعوت عام کی منادی کرنا تکلیف مالایطاق ہے۔جوشرعا محل نظر ہے۔یہ طریقہ اصحاب ثروت نے شروع کیا ہے جن کے لئے چند دیگیں پکا لینا کوئی مشکل امرنہیں۔لیکن اس رواج نے کم وسائل والے لوگوں کےلئے مشکلات پیدا کردی ہیں۔ بنا بریں اس موقع پرتمام شرکائے جنازہ کےلئے دعوت عام کا اہمتام کنا قابل اصلاح ہے کھانے کا یہ اہتمام صرف قریبی اعزہ کےلئے ہوناچاہیے۔دوسرو ں کےلئے اس کا اہتمام کیاجائے۔نہ دوسرے لوگ اس میں شریک ہوں۔ اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کچھ لوگ کہتے ہیں۔کہ اہل میت کے گھر میں تین دن تک کھانا پکانا جائز نہیں۔لیکن نبی کریمﷺ کا یہ فرمان تو عین وقت کےلئے تھا۔اسے تین دن تک لمبا کرنا تو شرعا صحیح معلوم نہیں ہوتا۔علاوہ ازیں اس سے اصل مقصود اہل میت سے اظہار ہمدردی تھا۔محض کھانا پکانے کی ممانعت نہیں۔اس لئے اس سے استدلال کرکے اہل میت کے گھر کھانا پکانے کو یکسر ممنوع قرار دینا بھی صحیح نہیں۔البتہ ایک ااور رواج جوعام ہوگیا ہے۔شرعا محل نظر ہے۔اور وہ ہے جنازے میں شریک ہونے والوں کے لئے کھانا پکانا او دعوت عام کا اہتمام کرنا۔جنازے میں شریک ہونے والے دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ایک تو قریبی اعزہ۔جو دوردراز کے علاقوں میں ـ(مختلف شہروں) سےآتے ہیں۔وہ فورا ً واپس نہیں جاسکتے۔ اور میت سے خصوصی تعلق کی وجہ سے ان کا فورا واپس چلے جانا مناسب بھی نہیں ہوتا۔دوسری قسم کے لوگ جو تعداد میں عام طور پر قریبی اعزہ سے زیادہ ہوتے ہیں۔جو دوست احباب اہل محلہ واہل مسلک پر مشتمل ہوتے ہیں۔ان کی شرکت نماز جنازہ یا زیادہ سے زیادہ تدفین تک ہوتی ہے۔اس کے بعد یہ اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ اول الزکر قسم کے لوگوں کے لئے کھانا تیارکرنا تو یقینا جائز ہے۔کیوکہ وہ میت کے نہایت قریبی ہوتے ہیں۔اور ان کا قیام بھی اہل میت کے پاس ہوتا ہے۔لیکن ثانی الذکر لوگوں کےلئے بھی کھانا تیار کرنا ان کو دعوتوں کی طرح کھانا کھلانا یا انہیں کھانے پر مجبور کرنا یا دعوت عام کی منادی کرنا تکلیف مالایطاق ہے۔جوشرعا محل نظر ہے۔یہ طریقہ اصحاب ثروت نے شروع کیا ہے جن کے لئے چند دیگیں پکا لینا کوئی مشکل امرنہیں۔لیکن اس رواج نے کم وسائل والے لوگوں کےلئے مشکلات پیدا کردی ہیں۔ بنا بریں اس موقع پرتمام شرکائے جنازہ کےلئے دعوت عام کا اہمتام کنا قابل اصلاح ہے کھانے کا یہ اہتمام صرف قریبی اعزہ کےلئے ہوناچاہیے۔دوسرو ں کےلئے اس کا اہتمام کیاجائے۔نہ دوسرے لوگ اس میں شریک ہوں۔