Book - حدیث 3124

كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ الصَّبرِ عِندَ المُصِيبَةِ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ أَتَى نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى امْرَأَةٍ تَبْكِي عَلَى صَبِيٍّ لَهَا فَقَالَ لَهَا اتَّقِي اللَّهَ وَاصْبِرِي فَقَالَتْ وَمَا تُبَالِي أَنْتَ بِمُصِيبَتِي فَقِيلَ لَهَا هَذَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَتْهُ فَلَمْ تَجِدْ عَلَى بَابِهِ بَوَّابِينَ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَمْ أَعْرِفْكَ فَقَالَ إِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَةِ الْأُولَى أَوْ عِنْدَ أَوَّلِ صَدْمَةٍ

ترجمہ Book - حدیث 3124

کتاب: جنازے کے احکام و مسائل باب: صبر در حقيقت وه ہی ہے جو صدمہ آتے ہی کیا جائے سیدنا انس ؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ ایک عورت کے پاس سے گزرے جو اپنے بچے پر رو رہی تھی آپ ﷺ نے اس سے فرمایا ” اللہ کا تقویٰ اختیار کر اور صبر کر ۔ “ وہ بولی تمہیں میری مصیبت کی کیا پروا ؟ اس عورت سے کہا گیا : یہ تو نبی ﷺ ہیں ۔ تب وہ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی ‘ اس نے آپ ﷺ کے دروازے پر چوکیدار نہ پائے ۔ اس نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا ‘ تو آپ ﷺ نے فرمایا ” صبر وہی ہوتا ہے جو پہلے صدمہ کے وقت ہو ۔ “
تشریح : 1۔رونے پیٹنے اور چیخنے چلانے کے بعد جب انسان ویسے ہی تھک ہارجاتاہے۔ تو اسے صبر قرار نہیں دیا جاسکتا۔صبر تو یہ ہے کہ مصیبت آئے تو اس پر(انا للہ وانا الیہ راجعون)کے علاوہ کچھ نہ کہاجائے۔اللہ کے فیصلے پر تسلیم ورضا کا مظاہرہ کیا جائے۔ اور جزع فزع نوحہ وماتم اوراللہ کاشکوہ نہ کیا جائے۔2۔شدت جزبات اور آپ کو نہ پہچاننے کی وجہ سے اس عورت سے رسول اللہ ﷺکے حق میں جو تقصیر ہوئی آپ نے اسے معاف فرمادیا۔3۔جوشخص اپنے نابالغ بچوں کی وفات پر صبرورضا کا اظہار کرے۔اسے جنت کی بشارت دی گئی ہے۔حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ۔جس مسلمان کے تین بچے بالغ ہونے سے پہلے فوت ہوجایئں تو اللہ تعالیٰ اس کو ان بچوں پر اپنی رحمت کی برکت سے جنت میں داخل فرمائےگا۔ (صحیح البخاری۔الجنائز۔باب فصل من مات لہ ولد فاحتسب حدیث1248) اسی طرح ایک دوسری روایت میں آپ ﷺ نے فرمایا! جس مسلما ن کے تین بچے فوت ہوجایئں اسے جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی۔ (صحیح البخاری الجنائز حدیث 1251) علاوہ ازیں حضرت ابوسعید خدریرضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں ہے کہ آپ نے عورتوں سے مخاطب ہوکرفرمایا!تم میں سے جو عورت اپنے تین بچے آگے بھیج دے۔یعنیفوت ہوجایئں۔تو وہ اس کےلئے جہنم کی آگ سے رکاوٹ بن جایئں گے۔تو ایک عورت نے کہا۔اور دو بچوں کاکیا حکم ہے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دو کا بھی یہی حکم ہے (صحیح البخاری الجنائز حدیث 1249) 1۔رونے پیٹنے اور چیخنے چلانے کے بعد جب انسان ویسے ہی تھک ہارجاتاہے۔ تو اسے صبر قرار نہیں دیا جاسکتا۔صبر تو یہ ہے کہ مصیبت آئے تو اس پر(انا للہ وانا الیہ راجعون)کے علاوہ کچھ نہ کہاجائے۔اللہ کے فیصلے پر تسلیم ورضا کا مظاہرہ کیا جائے۔ اور جزع فزع نوحہ وماتم اوراللہ کاشکوہ نہ کیا جائے۔2۔شدت جزبات اور آپ کو نہ پہچاننے کی وجہ سے اس عورت سے رسول اللہ ﷺکے حق میں جو تقصیر ہوئی آپ نے اسے معاف فرمادیا۔3۔جوشخص اپنے نابالغ بچوں کی وفات پر صبرورضا کا اظہار کرے۔اسے جنت کی بشارت دی گئی ہے۔حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ۔جس مسلمان کے تین بچے بالغ ہونے سے پہلے فوت ہوجایئں تو اللہ تعالیٰ اس کو ان بچوں پر اپنی رحمت کی برکت سے جنت میں داخل فرمائےگا۔ (صحیح البخاری۔الجنائز۔باب فصل من مات لہ ولد فاحتسب حدیث1248) اسی طرح ایک دوسری روایت میں آپ ﷺ نے فرمایا! جس مسلما ن کے تین بچے فوت ہوجایئں اسے جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی۔ (صحیح البخاری الجنائز حدیث 1251) علاوہ ازیں حضرت ابوسعید خدریرضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں ہے کہ آپ نے عورتوں سے مخاطب ہوکرفرمایا!تم میں سے جو عورت اپنے تین بچے آگے بھیج دے۔یعنیفوت ہوجایئں۔تو وہ اس کےلئے جہنم کی آگ سے رکاوٹ بن جایئں گے۔تو ایک عورت نے کہا۔اور دو بچوں کاکیا حکم ہے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دو کا بھی یہی حکم ہے (صحیح البخاری الجنائز حدیث 1249)