Book - حدیث 3122

كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ الْجُلُوسِ عِنْدَ الْمُصِيبَةِ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ كَثِيرٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ عَنْ عَمْرَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ لَمَّا قُتِلَ زَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ وَجَعْفَرٌ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ جَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ يُعْرَفُ فِي وَجْهِهِ الْحُزْنُ وَذَكَرَ الْقِصَّةَ

ترجمہ Book - حدیث 3122

کتاب: جنازے کے احکام و مسائل باب: مصیبت کے وقت ( غم کے سبب سے ) بیٹھنے کا بیان ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓا سے مروی ہے وہ بیان کرتی ہیں کہ جب سیدنا زید بن حارثہ ‘ جعفر بن ابی طالب اور عبداللہ بن رواحہ ؓم کی شہادتیں ہوئیں تو رسول اللہ ﷺ مسجد میں بیٹھ گئے ۔ آپ ﷺ کے چہرے پر غم کے اثرات نمایاں تھے ۔ اور ( راوی نے ) قصہ بیان کیا ۔
تشریح : اہل میت اور ان کے اعزہ و احباب کوایسے موقع پر بیٹھنا اور اکھٹے ہونا م مباح ومستحب ہے لیکن یہ کوئی ضروری نہیں کہ زمین ہی پر بیٹھا جائے بلکہ حسب احوال چٹایئوں چار پایئوں یا کرسیوں پر بیٹھنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔تاہم تین دن تک اس طرح تعزیت کےلئے آنے جانے والوں کی خاطر بیٹھنے کو لازم سمجھنا غلط ہے ۔کیونکہ یہ کوئی شرعی مسئلہ نہیں ہے۔کہ اسے ضروری سمجھا جائے۔اسے زیادہ سے زیادہ ایک جائز رواج ہی کیا جاسکتاہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔علاوہ ازیں ان ایام میں تعزیت کے لئے آنے والا شخص حاضرین سمیت پہلے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کو ضروری سمجھتاہے۔اور جو شخص ایسا نہیں کرتا۔یا اہل میت اس طریقے کو اختیار نہیں کرتے۔تو برا منایا جاتا ہے۔اور اس شخص کو یا اہل میت کو دعا کامنکر باور کرایا جاتاہے۔حالانکہ مسئلہ دعا کی اہمیت و فضیلت کا نہیں ہے۔ اس لئے کہ وہ تو مسلمہ ہے۔دعاکی اہمیت وفضیلت کاکوئی منکر نہیں اصل مسئلہ مسنون طریقے سے دعا کرنے کا ہے۔با ر بارہاتھ اٹھا کردعاکرنا ایک رسم ہے۔اور اس میں اکثر کچھ پڑھا بھی نہیں جاتا۔یا صرف فاتحہ خوانی کر لی جاتی ہے۔حالانکہ سورہ فاتحہ میں میت کےلئے مغفرت کی دعاکاکوئی پہلو ہی نہیں ہے۔گویا یہ طریقہ ایک تو مسنون نہیں ہے۔صرف رسم ہے دوسری میت کے حق میں اس طرح مغفرت کی دعا بھی بالعموم نہیں ہوتی۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے تو پھر تعزیت کا مسنون طریقہ کیاہے۔؟وہ طریقہ حسب ذیل ہے۔اول تو میت کے اہل خانہ کا اس طرح اہتمام کے ساتھ مسلسل چند دن بیٹھنا ہی ایسا عمل ہے۔جس کا ثبوت عہد رسالت وعہد صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین وتابعین میں ملنا نہایت مشکل ہے۔اصل بات جنازے اور تدفین میں شریک ہوکر میت کے لئے مغفرت کی دعا کرناہے۔اس کے بعد اہل میت کےلئے خاص طور پردریاں یا صفیں بچھا کر بیٹھنا محل نظر ہے۔تدفین کے بعد ان کو اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوجاناچاہیے۔اور اہل میت جب بھی اور جہاں بھی ملیں ان سے تعزیت کر لی جائے۔تعزیت کن الفاظ میں اور کسطرح کی جائے؟بہتر یہ ہے کہ اہل میت کو سب سے پہلے صبر ورضا کی تلقین کی جائے۔(اناللہ وانا الیہ راجعون) پڑھ کرسب کےلئے اسی انجام سے دو چارہونے کو واضح کیا جائے۔میت کے حق میں بغیرہاتھ اٹھائے مغفرت کی دعا کی جائے۔اوراہل میت کےلئے صبر جمیل کی۔اور وہ دعایئں پڑھی جایئں۔جو اس موقع پر نبی کریمﷺ سے ثابت ہیں۔مثلا ً نبی کی صاحب زادی حضرت زینب کا بچہ عالم نزع میں تھا۔انہوں نے نبی کریمﷺ کو بلانے کےلئے پیغام بھیجا۔تو آپ نے انھیں صبر واحتساب کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا۔ ان لله ما اخذ وله ما اعطي وكل عنده باجل مسمي (صحیح بخاری الجنائز باب 32 حدیث 1284) بے شک اللہ ہی کاہے۔جو اس نے لیا اور اسی کاہے۔جو اس نے دیا۔اور ہر ایک کےلئے اس کے پاس ایک وقت مقرر ہے۔ جب حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوت ہوگئے۔تو نبی کریمﷺ ان کی اہلیہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تعزیت کےلئے تشریف لے گئے اوران الفاظ می دعا فرمائی۔ اللهم اغفر لابي سلمة وارفع درجته في المهدين واخلفه في عقبيه في الغابرين واغفر لنا وله يارب العالمين وافسح له في قبره ونورله فيه ) (صحیح مسلم الجنائز حدیث 920) اے اللہ!ابوسلمہ کی مغفرت فرما اس کے درجے مہدین میں بلند فرما۔اور اس کے پیچھے رہ جانے والوں میں اس کے بعد تو ان کا جانشین بن اور ہماری اور اس کی مغفرت فرما۔اے رب العالمین اس کی قبر میں کشادگی عطا فرما اور اس کو اس کےلئے منور فرمادے۔ جس کو یہ مسنون دعایئں اور الفاظ یاد نہ ہوں۔تو وہ اپنی زبان میں ہاتھ اٹھائےبغیر میت کے لئے مغفرت کی اور اہل خانہ کےلئے صبر جمیل کی دعا کرے۔اور ا س قسم کی باتیں کرے۔ جس سے پسماندگان کو تسلی ملے۔اور ان ک دل وماغ سے صدمے کے اثرات کم ہوں۔اس موقع پر بھی چونکہ نبی کریمﷺ سے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا ثابت نہیں ہے اس لئے اس رواج سے بچا جائے اور سنت کے مطابق بغیر ہاتھ اٹھائے دعا کی جائے۔ اہل میت اور ان کے اعزہ و احباب کوایسے موقع پر بیٹھنا اور اکھٹے ہونا م مباح ومستحب ہے لیکن یہ کوئی ضروری نہیں کہ زمین ہی پر بیٹھا جائے بلکہ حسب احوال چٹایئوں چار پایئوں یا کرسیوں پر بیٹھنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔تاہم تین دن تک اس طرح تعزیت کےلئے آنے جانے والوں کی خاطر بیٹھنے کو لازم سمجھنا غلط ہے ۔کیونکہ یہ کوئی شرعی مسئلہ نہیں ہے۔کہ اسے ضروری سمجھا جائے۔اسے زیادہ سے زیادہ ایک جائز رواج ہی کیا جاسکتاہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔علاوہ ازیں ان ایام میں تعزیت کے لئے آنے والا شخص حاضرین سمیت پہلے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کو ضروری سمجھتاہے۔اور جو شخص ایسا نہیں کرتا۔یا اہل میت اس طریقے کو اختیار نہیں کرتے۔تو برا منایا جاتا ہے۔اور اس شخص کو یا اہل میت کو دعا کامنکر باور کرایا جاتاہے۔حالانکہ مسئلہ دعا کی اہمیت و فضیلت کا نہیں ہے۔ اس لئے کہ وہ تو مسلمہ ہے۔دعاکی اہمیت وفضیلت کاکوئی منکر نہیں اصل مسئلہ مسنون طریقے سے دعا کرنے کا ہے۔با ر بارہاتھ اٹھا کردعاکرنا ایک رسم ہے۔اور اس میں اکثر کچھ پڑھا بھی نہیں جاتا۔یا صرف فاتحہ خوانی کر لی جاتی ہے۔حالانکہ سورہ فاتحہ میں میت کےلئے مغفرت کی دعاکاکوئی پہلو ہی نہیں ہے۔گویا یہ طریقہ ایک تو مسنون نہیں ہے۔صرف رسم ہے دوسری میت کے حق میں اس طرح مغفرت کی دعا بھی بالعموم نہیں ہوتی۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے تو پھر تعزیت کا مسنون طریقہ کیاہے۔؟وہ طریقہ حسب ذیل ہے۔اول تو میت کے اہل خانہ کا اس طرح اہتمام کے ساتھ مسلسل چند دن بیٹھنا ہی ایسا عمل ہے۔جس کا ثبوت عہد رسالت وعہد صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین وتابعین میں ملنا نہایت مشکل ہے۔اصل بات جنازے اور تدفین میں شریک ہوکر میت کے لئے مغفرت کی دعا کرناہے۔اس کے بعد اہل میت کےلئے خاص طور پردریاں یا صفیں بچھا کر بیٹھنا محل نظر ہے۔تدفین کے بعد ان کو اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوجاناچاہیے۔اور اہل میت جب بھی اور جہاں بھی ملیں ان سے تعزیت کر لی جائے۔تعزیت کن الفاظ میں اور کسطرح کی جائے؟بہتر یہ ہے کہ اہل میت کو سب سے پہلے صبر ورضا کی تلقین کی جائے۔(اناللہ وانا الیہ راجعون) پڑھ کرسب کےلئے اسی انجام سے دو چارہونے کو واضح کیا جائے۔میت کے حق میں بغیرہاتھ اٹھائے مغفرت کی دعا کی جائے۔اوراہل میت کےلئے صبر جمیل کی۔اور وہ دعایئں پڑھی جایئں۔جو اس موقع پر نبی کریمﷺ سے ثابت ہیں۔مثلا ً نبی کی صاحب زادی حضرت زینب کا بچہ عالم نزع میں تھا۔انہوں نے نبی کریمﷺ کو بلانے کےلئے پیغام بھیجا۔تو آپ نے انھیں صبر واحتساب کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا۔ ان لله ما اخذ وله ما اعطي وكل عنده باجل مسمي (صحیح بخاری الجنائز باب 32 حدیث 1284) بے شک اللہ ہی کاہے۔جو اس نے لیا اور اسی کاہے۔جو اس نے دیا۔اور ہر ایک کےلئے اس کے پاس ایک وقت مقرر ہے۔ جب حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوت ہوگئے۔تو نبی کریمﷺ ان کی اہلیہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تعزیت کےلئے تشریف لے گئے اوران الفاظ می دعا فرمائی۔ اللهم اغفر لابي سلمة وارفع درجته في المهدين واخلفه في عقبيه في الغابرين واغفر لنا وله يارب العالمين وافسح له في قبره ونورله فيه ) (صحیح مسلم الجنائز حدیث 920) اے اللہ!ابوسلمہ کی مغفرت فرما اس کے درجے مہدین میں بلند فرما۔اور اس کے پیچھے رہ جانے والوں میں اس کے بعد تو ان کا جانشین بن اور ہماری اور اس کی مغفرت فرما۔اے رب العالمین اس کی قبر میں کشادگی عطا فرما اور اس کو اس کےلئے منور فرمادے۔ جس کو یہ مسنون دعایئں اور الفاظ یاد نہ ہوں۔تو وہ اپنی زبان میں ہاتھ اٹھائےبغیر میت کے لئے مغفرت کی اور اہل خانہ کےلئے صبر جمیل کی دعا کرے۔اور ا س قسم کی باتیں کرے۔ جس سے پسماندگان کو تسلی ملے۔اور ان ک دل وماغ سے صدمے کے اثرات کم ہوں۔اس موقع پر بھی چونکہ نبی کریمﷺ سے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا ثابت نہیں ہے اس لئے اس رواج سے بچا جائے اور سنت کے مطابق بغیر ہاتھ اٹھائے دعا کی جائے۔