كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ مَا يُسْتَحَبُّ مِنْ تَطْهِيرِ ثِيَابِ الْمَيِّتِ عِنْدَ الْمَوْتِ صحیح حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ عَنْ ابْنِ الْهَادِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّهُ لَمَّا حَضَرَهُ الْمَوْتُ دَعَا بِثِيَابٍ جُدُدٍ فَلَبِسَهَا ثُمَّ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ الْمَيِّتَ يُبْعَثُ فِي ثِيَابِهِ الَّتِي يَمُوتُ فِيهَا
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
باب: مستحب ہے کہ قریب الموت آدمی کے کپڑے پاک صاف کر دیے جائیں
سیدنا ابوسلمہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابو سعید خدری ؓ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے نئے کپڑے منگوائے اور پہن لیے ۔ پھر کہنے لگے : بیشک میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ ” میت کو انہی کپڑوں میں اٹھایا جائے گا جن میں اسے موت آئے گی ۔ “
تشریح :
مومن کا امتیازی وصف ہے۔کہ وہمیشہ پاک صاف رہتا ہے۔ اور اللہ عزوجل بھی (متطهرين) سے محبت رکھتا ہے۔تو چاہیے کہ آخرت کے سفر میں جس میں کہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات ہونے والی ہے۔مسلمان کا جسم اور لباس خوب عمدہ اور پاک صاف ہو خیال رہے کہ لوگ محشر میں ابتدائے بے لباس اٹھائے جایئں گے۔اور پھر سب سے پہلے حضرت ابراہیم ؑ اور بعد ازان محمد رسول اللہ ﷺ کو لباس دیا جائے گا۔اور ان کے بعد دیگر مومنین کو تو جس نے جس قسم کالباس اختیار کیا ہوگا۔اسے اسی قسم کالباس دے دیا جائے گا۔مگر لباس التقویٰ ہی سب سے بڑھ کر ہے۔اس کے بغیر ظاہری لباس لغو بے معنی ہیں۔اورعربی محاورہ میں (طاہر الثوب) پاک صاف کپڑوں والا ایسےآدمی کو کہا جاتا ہے جو اپنے اخلاق وکردار میں صاف ستھرا ہو اور اس کے برعکس کو(دنس الثوب) میلے کچیلے کپڑوں والا سے تعبیر کیا جاتا ہے۔یعنی اس کا اخلاق وکردار گندا اور میلاہے۔
مومن کا امتیازی وصف ہے۔کہ وہمیشہ پاک صاف رہتا ہے۔ اور اللہ عزوجل بھی (متطهرين) سے محبت رکھتا ہے۔تو چاہیے کہ آخرت کے سفر میں جس میں کہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات ہونے والی ہے۔مسلمان کا جسم اور لباس خوب عمدہ اور پاک صاف ہو خیال رہے کہ لوگ محشر میں ابتدائے بے لباس اٹھائے جایئں گے۔اور پھر سب سے پہلے حضرت ابراہیم ؑ اور بعد ازان محمد رسول اللہ ﷺ کو لباس دیا جائے گا۔اور ان کے بعد دیگر مومنین کو تو جس نے جس قسم کالباس اختیار کیا ہوگا۔اسے اسی قسم کالباس دے دیا جائے گا۔مگر لباس التقویٰ ہی سب سے بڑھ کر ہے۔اس کے بغیر ظاہری لباس لغو بے معنی ہیں۔اورعربی محاورہ میں (طاہر الثوب) پاک صاف کپڑوں والا ایسےآدمی کو کہا جاتا ہے جو اپنے اخلاق وکردار میں صاف ستھرا ہو اور اس کے برعکس کو(دنس الثوب) میلے کچیلے کپڑوں والا سے تعبیر کیا جاتا ہے۔یعنی اس کا اخلاق وکردار گندا اور میلاہے۔