كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ مَا يُسْتَحَبُّ مِنْ حُسْنِ الظَّنِّ بِاللَّهِ عِنْدَ الْمَوْتِ صحیح حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ أَبِي سُفْيَانَ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ قَبْلَ مَوْتِهِ بِثَلَاثٍ قَالَ لَا يَمُوتُ أَحَدُكُمْ إِلَّا وَهُوَ يُحْسِنُ الظَّنَّ بِاللَّهِ
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
باب: مستحب ہے کہ انسان موت کے وقت اللہ تعالیٰ سے اچھا گمان رکھے
سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا ‘ آپ ﷺ نے اپنی وفات سے تین روز پہلے فرمایا تھا ” تم میں سے کسی کی موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ وہ اللہ کے ساتھ عمدہ گمان رکھتا ہو ۔ “
تشریح :
عمدہ گمان ظاہر بات ہے وہی کرسکتاہے۔ جس نے مومنانہ اور صالحانہ زندگی گزاری ہو ایک غیر مومنانہ اور غیر صالحانہ زندگی گزارنے والاکا حسن ظن ایسا ہی ہوگا۔ جیسے تخم حنظل بوکر شیریں اور خوش ذائقہ پھلوں کی امید رکھنا اس لئے مسئلہ تو یہی ہے انسان اپنے اللہ کے ساتھ ہمیشہ ہی عمدہ اور بہترین گمان رکھناچاہیے۔کہ وہ اس کے ساتھ ظاہری باطنی اوردنیاوآخرت کے تمام امور میں اچھا معاملہ فرمائے گا۔مگرشرط یہ ہے کہ بتقاضائے شریعت اس کی واقعی بنیاد بھی ہو یعنی ایمان ۔تقویٰ اورعمل صالح سے مزین ہو۔اس سے اعراض کرکے یا عناد کا رویہ رکھ کر اللہ تعالیٰ پر تمنایئں باندھنا سراسردھوکاہے۔لیکن پھر بھی اللہ رب العالمین ہے۔اس کے اپنے فیصلے ہیں۔قرآن وسنت سے ہٹ کرکسی کے متعلق حتمی طور پرکچھ کہنا روا نہیں ہے بہرحال مومن کو امید اور خوف دونوں پہلووں کو پیش نظر رکھتے ہوئے زندگی گزارنی چاہیے۔صحت وعافیت کے دنوں میں خوف کا پہلو کسی قدرغالب رہے تواچھا ہے لیکن بوقت رحلت امید کا پہلو غالب رکھنا چاہیے۔کہ وہ الرحمٰن الرحیم اپنے خاص فضل سے عفو دستر کا معاملہ فرمائے گا۔
عمدہ گمان ظاہر بات ہے وہی کرسکتاہے۔ جس نے مومنانہ اور صالحانہ زندگی گزاری ہو ایک غیر مومنانہ اور غیر صالحانہ زندگی گزارنے والاکا حسن ظن ایسا ہی ہوگا۔ جیسے تخم حنظل بوکر شیریں اور خوش ذائقہ پھلوں کی امید رکھنا اس لئے مسئلہ تو یہی ہے انسان اپنے اللہ کے ساتھ ہمیشہ ہی عمدہ اور بہترین گمان رکھناچاہیے۔کہ وہ اس کے ساتھ ظاہری باطنی اوردنیاوآخرت کے تمام امور میں اچھا معاملہ فرمائے گا۔مگرشرط یہ ہے کہ بتقاضائے شریعت اس کی واقعی بنیاد بھی ہو یعنی ایمان ۔تقویٰ اورعمل صالح سے مزین ہو۔اس سے اعراض کرکے یا عناد کا رویہ رکھ کر اللہ تعالیٰ پر تمنایئں باندھنا سراسردھوکاہے۔لیکن پھر بھی اللہ رب العالمین ہے۔اس کے اپنے فیصلے ہیں۔قرآن وسنت سے ہٹ کرکسی کے متعلق حتمی طور پرکچھ کہنا روا نہیں ہے بہرحال مومن کو امید اور خوف دونوں پہلووں کو پیش نظر رکھتے ہوئے زندگی گزارنی چاہیے۔صحت وعافیت کے دنوں میں خوف کا پہلو کسی قدرغالب رہے تواچھا ہے لیکن بوقت رحلت امید کا پہلو غالب رکھنا چاہیے۔کہ وہ الرحمٰن الرحیم اپنے خاص فضل سے عفو دستر کا معاملہ فرمائے گا۔