Book - حدیث 3111

كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابٌ فِي فَضلِ مَن مَاتَ بِالطَاعُونِ صحیح حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ عَنْ مَالِكٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَابِرِ بْنِ عَتِيكٍ عَنْ عَتِيكِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَتِيكٍ وَهُوَ جَدُّ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَبُو أُمِّهِ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ عَمَّهُ جَابِرَ بْنَ عَتِيكٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَ يَعُودُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ ثَابِتٍ فَوَجَدَهُ قَدْ غُلِبَ فَصَاحَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُجِبْهُ فَاسْتَرْجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ غُلِبْنَا عَلَيْكَ يَا أَبَا الرَّبِيعِ فَصَاحَ النِّسْوَةُ وَبَكَيْنَ فَجَعَلَ ابْنُ عَتِيكٍ يُسَكِّتُهُنَّ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعْهُنَّ فَإِذَا وَجَبَ فَلَا تَبْكِيَنَّ بَاكِيَةٌ قَالُوا وَمَا الْوُجُوبُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ الْمَوْتُ قَالَتْ ابْنَتُهُ وَاللَّهِ إِنْ كُنْتُ لَأَرْجُو أَنْ تَكُونَ شَهِيدًا فَإِنَّكَ كُنْتَ قَدْ قَضَيْتَ جِهَازَكَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَوْقَعَ أَجْرَهُ عَلَى قَدْرِ نِيَّتِهِ وَمَا تَعُدُّونَ الشَّهَادَةَ قَالُوا الْقَتْلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ تَعَالَى قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الشَّهَادَةُ سَبْعٌ سِوَى الْقَتْلِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ الْمَطْعُونُ شَهِيدٌ وَالْغَرِقُ شَهِيدٌ وَصَاحِبُ ذَاتِ الْجَنْبِ شَهِيدٌ وَالْمَبْطُونُ شَهِيدٌ وَصَاحِبُ الْحَرِيقِ شَهِيدٌ وَالَّذِي يَمُوتُ تَحْتَ الْهَدْمِ شَهِيدٌ وَالْمَرْأَةُ تَمُوتُ بِجُمْعٍ شَهِيدٌ

ترجمہ Book - حدیث 3111

کتاب: جنازے کے احکام و مسائل باب: اس شخص كی فضیلت جو طاعون سے مر جائے سیدنا جابر بن عتیک ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عبداللہ بن ثابت ؓ کی عیادت کے لیے تشریف لائے تو اسے بیہوش پایا ۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے ذرا زور سے بلایا ‘ مگر اس نے جواب نہ دیا ‘ تو آپ ﷺ نے «إنا لله وإنا إليه راجعون» پڑھا اور فرمایا ” اے ابوالربیع ! تیرے معاملے میں ہم مغلوب ہیں ( اللہ کا فیصلہ اور اس کی تقدیر ہی غالب ہے ۔ ) “ تو عورتیں چیخ پڑیں اور رونے لگیں ۔ ابن عتیک انہیں خاموش کرانے لگے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” انہیں چھوڑ دو مگر جب معاملہ ثابت ہو جائے تو پھر کوئی ہرگز نہ روئے ۔ “ انہوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! «وجوب» ( معاملہ ثابت ہو جانے ) سے کیا مراد ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ’’ موت ۔ “ اس کی ایک بیٹی ( عبداللہ کے متعلق ) کہنے لگی : مجھے تو امید تھی کہ اللہ تعالیٰ تمہیں شہادت سے سرفراز فرمائے گا اور آپ نے اپنا سامان جہاد بھی تیار کر لیا تھا ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” بلاشبہ اللہ عزوجل نے اس کا اجر اس کی نیت کے مطابق دے دیا ہے ۔ اور تم لوگ شہادت کسے سمجھتے ہو ؟ “ وہ کہنے لگے کہ اللہ کی راہ میں قتل ہو جانا ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” اللہ کی راہ میں قتل کے علاوہ بھی شہادت کے سات اسباب ہیں ۔ طاعون سے مرنے والا شہید ہے ‘ پانی میں ڈوب جانے والا شہید ‘ ذات الجنب سے مر جانے والا شہید ہے ( ذات الجنب ایک سخت قسم کی بیماری ہے جس میں پسلی کے اندر ایک پھوڑا ہو جاتا ہے اکثر طور پر آدمی اس سے ہلاک ہو جاتا ۔ ) ‘ پیٹ کی تکلیف سے مر جانے والا شہید ہے ‘ آگ میں جل مرنے والا شہید ہے ‘ کسی مکان یا دیوار کے نیچے آ کر مر جانے والا شہید ہے اور وہ عورت ‘ جو ولادت کی تکلیف ( درد زہ ) میں وفات پا جائے ‘ شہید ہے ۔ امام ابوداؤد ؓ نے کہا : «الجمع» سے مراد یہ ہے کہ بچہ بھی عورت کے ساتھ ہو ( مر جائے ) ۔
تشریح : مومنوں کےلئے اللہ کی رحمت کا کوئی کنارہ نہیں۔مندرجہ بالا کیفیتوں میں آنے والی موت شہادت کی موت ہے۔ بشرط یہ کہ مرنے والا بھی اس کیفیت پرراضی برضا ہو اور سب سے اٖفضل شہید وہ ہے جو معرکہ میں کام آجائے۔ مومنوں کےلئے اللہ کی رحمت کا کوئی کنارہ نہیں۔مندرجہ بالا کیفیتوں میں آنے والی موت شہادت کی موت ہے۔ بشرط یہ کہ مرنے والا بھی اس کیفیت پرراضی برضا ہو اور سب سے اٖفضل شہید وہ ہے جو معرکہ میں کام آجائے۔