Book - حدیث 3094

كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابٌ فِي الْعِيَادَةِ ضعیف حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ عَرَفَ فِيهِ الْمَوْتَ قَالَ قَدْ كُنْتُ أَنْهَاكَ عَنْ حُبِّ يَهُودَ قَالَ فَقَدْ أَبْغَضَهُمْ سَعْدُ بْنُ زُرَارَةَ فَمَهْ فَلَمَّا مَاتَ أَتَاهُ ابْنُهُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ قَدْ مَاتَ فَأَعْطِنِي قَمِيصَكَ أُكَفِّنْهُ فِيهِ فَنَزَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَمِيصَهُ فَأَعْطَاهُ إِيَّاهُ

ترجمہ Book - حدیث 3094

کتاب: جنازے کے احکام و مسائل باب: عیادت کا بیان سیدنا اسامہ بن زید ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عبداللہ بن ابی ( منافق ) کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے ‘ اس بیماری میں جس میں کہ وہ مر گیا تھا ۔ چنانچہ جب آپ ﷺ اس کے ہاں پہنچے تو آپ ﷺ نے اس پر موت کے اثرات محسوس کیے ( اور ) فرمایا ” میں تجھے منع کیا کرتا تھا کہ یہود سے محبت نہ رکھ ۔ “ اس نے کہا : اسعد بن زرادہ نے ان سے بغض رکھا تو کیا ہوا ؟ پھر جب وہ مر گیا تو اس کا بیٹا ( عبداللہ ؓ ) آپ ﷺ کی خدمت میں آیا اور کہا : اے اﷲ کے نبی ! بیشک عبداللہ بن ابی مر گیا ہے ‘ تو آپ مجھے اپنی قمیص عنایت فر دیں کہ میں اسے اس میں کفن دوں تو رسول اللہ ﷺ نے اپنی قمیص اتار کر اسے دے دی ۔
تشریح : 1۔اس روایت کی سند ضعیف ہے۔تاہم قمیص کا قصہ صحیح ثابت ہے۔(علامہ البانی)2۔مسلمان کی عیادت کےلئے جانا ایک شرعی حق ہے۔ اسی طرح کسی غلط کردارشخص کی عیادت کے لئے بھی جایا جاسکتا ہے۔اور یہ یقینا اسلامی اخلاق ومروت کا حصہ ہے۔3۔اس منافق کے صاحب زادے حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک خالص مومن صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ اور رسول اللہ ﷺ نے شاید اپنے اس محب مخلص کی دلداری کےلئے اپنی قیمص عنایت فرمادی تھی۔اور یہ عمل ایک بیٹے کا اپنے باپ کے کئے ایک ادنیٰ سا حیلہ تھا کہ شاید اس کی برکت سے اسے کچھ فائدہ ہوجائے۔اور یہ بھی ہے کہ نبی کریم ﷺنے اس طرح سے اس منافق کے ایک احسان کا بدلہ چکایا تھا۔کہ بدر کے موقع پر جب رسول اللہ ﷺ کے چچاحضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ قید کرلئے گئے۔تو ان کے پاس قمیص نہ تھی۔تو عبدا للہ بن ابی نے اپنی قمیص دی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نبی کریم ﷺ سے جب کوئی چیز مانگی جاتی تو آپ اس سے انکار نہ فرمایا کرتے تھے۔اور یوں بھی کہا گیا ہے کہ ممکن ہے کہ یہ عمل اس وقت کا ہو جب کہ یہ حکم نازل نہ ہوا تھا۔( وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰ أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَىٰ قَبْرِهِ ۖ)(التوبہ۔84/9)ان منافقوں میں سے جب کوئی مر جائے تو آپ اس کا جنازہ مت پڑھیں۔اوراس کی قبر پر بھی مت کھڑے ہوں (عون المعبود) 1۔اس روایت کی سند ضعیف ہے۔تاہم قمیص کا قصہ صحیح ثابت ہے۔(علامہ البانی)2۔مسلمان کی عیادت کےلئے جانا ایک شرعی حق ہے۔ اسی طرح کسی غلط کردارشخص کی عیادت کے لئے بھی جایا جاسکتا ہے۔اور یہ یقینا اسلامی اخلاق ومروت کا حصہ ہے۔3۔اس منافق کے صاحب زادے حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک خالص مومن صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ اور رسول اللہ ﷺ نے شاید اپنے اس محب مخلص کی دلداری کےلئے اپنی قیمص عنایت فرمادی تھی۔اور یہ عمل ایک بیٹے کا اپنے باپ کے کئے ایک ادنیٰ سا حیلہ تھا کہ شاید اس کی برکت سے اسے کچھ فائدہ ہوجائے۔اور یہ بھی ہے کہ نبی کریم ﷺنے اس طرح سے اس منافق کے ایک احسان کا بدلہ چکایا تھا۔کہ بدر کے موقع پر جب رسول اللہ ﷺ کے چچاحضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ قید کرلئے گئے۔تو ان کے پاس قمیص نہ تھی۔تو عبدا للہ بن ابی نے اپنی قمیص دی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نبی کریم ﷺ سے جب کوئی چیز مانگی جاتی تو آپ اس سے انکار نہ فرمایا کرتے تھے۔اور یوں بھی کہا گیا ہے کہ ممکن ہے کہ یہ عمل اس وقت کا ہو جب کہ یہ حکم نازل نہ ہوا تھا۔( وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰ أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَىٰ قَبْرِهِ ۖ)(التوبہ۔84/9)ان منافقوں میں سے جب کوئی مر جائے تو آپ اس کا جنازہ مت پڑھیں۔اوراس کی قبر پر بھی مت کھڑے ہوں (عون المعبود)