Book - حدیث 3080

كِتَابُ الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ بَابٌ فِي إِحْيَاءِ الْمَوَاتِ صحیح حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ غِيَاثٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ عَنْ كُلْثُومٍ عَنْ زَيْنَبَ أَنَّهَا كَانَتْ تَفْلِي رَأْسَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ امْرَأَةُ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ وَنِسَاءٌ مِنْ الْمُهَاجِرَاتِ وَهُنَّ يَشْتَكِينَ مَنَازِلَهُنَّ أَنَّهَا تَضِيقُ عَلَيْهِنَّ وَيُخْرَجْنَ مِنْهَا فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُوَرَّثَ دُورَ الْمُهَاجِرِينَ النِّسَاءُ فَمَاتَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ فَوُرِّثَتْهُ امْرَأَتُهُ دَارًا بِالْمَدِينَةِ

ترجمہ Book - حدیث 3080

کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل باب: بنجر لاوارث زمین کو آباد کرنا ام المؤمنین سیدہ زینب ؓا سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کا سر صاف کر رہی تھیں اور آپ ﷺ کے ہاں سیدنا عثمان بن عفان ؓ کی اہلیہ اور دیگر مہاجر خواتین بھی بیٹھی تھیں ‘ عورتوں نے اپنے گھروں کی تنگی کا شکوہ کیا اور یہ کہ انہیں ( شوہر کی وفات کے بعد ) گھروں سے نکال دیا جاتا ہے ‘ تو رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا ” مہاجرین کے گھر ان کی بیویوں کو وراثت میں دیے جائیں ۔ “ چنانچہ سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ فوت ہوئے تو ان کی زوجہ مدینہ میں ایک گھر کی وارث بنی تھیں ۔
تشریح : یہ روایت بعض محققین کے نزدیک صحیح ہے۔رسول اللہ ﷺ نے مہاجرین کو مدینہ منورہ میں زمین کے قطعات دئے تھے۔تا کہ یہ لوگ ان میں اپنا گھر بنا لیں۔چونکہ یہ قطعات احیاء الموات کے معنی میں تھے کہ ان لوگوں نے انہیں آباد کیا تھا۔تو وہ انہی کی ملکیت گردانے گئے۔ اس باب کے ساتھ اس حدیث کی یہی مناسبت ہے۔6۔بیویوں کو وراثت میں گھر دینے کا مسئلہ مہاجرین کی خواتین کے ساتھ خاص تھا۔کیونکہ یہ لوگ مدینہ منورہ میں ایک نئے وطن میں تھے۔اورعزیزواقارب سے دور ہوگئے تھے۔تو یہ حکم دیا گیا تاکہ شوہر کی وفات کے بعد انہیں تحفظ حاصل رہے۔یا یہ مفہوم بھی ہوسکتاہے۔کہ ترکہ کی تقسیم میں ان کے حصے کے مطابق انہیں زمین باغ اوردیگراموال کی بجائے گھر دیا جائے۔تاکہ وہ رہائش کے مسئلے میں مطمین رہیں۔(بذل المجہود ۔عون المعبود) یہ روایت بعض محققین کے نزدیک صحیح ہے۔رسول اللہ ﷺ نے مہاجرین کو مدینہ منورہ میں زمین کے قطعات دئے تھے۔تا کہ یہ لوگ ان میں اپنا گھر بنا لیں۔چونکہ یہ قطعات احیاء الموات کے معنی میں تھے کہ ان لوگوں نے انہیں آباد کیا تھا۔تو وہ انہی کی ملکیت گردانے گئے۔ اس باب کے ساتھ اس حدیث کی یہی مناسبت ہے۔6۔بیویوں کو وراثت میں گھر دینے کا مسئلہ مہاجرین کی خواتین کے ساتھ خاص تھا۔کیونکہ یہ لوگ مدینہ منورہ میں ایک نئے وطن میں تھے۔اورعزیزواقارب سے دور ہوگئے تھے۔تو یہ حکم دیا گیا تاکہ شوہر کی وفات کے بعد انہیں تحفظ حاصل رہے۔یا یہ مفہوم بھی ہوسکتاہے۔کہ ترکہ کی تقسیم میں ان کے حصے کے مطابق انہیں زمین باغ اوردیگراموال کی بجائے گھر دیا جائے۔تاکہ وہ رہائش کے مسئلے میں مطمین رہیں۔(بذل المجہود ۔عون المعبود)