كِتَابُ الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ بَابٌ فِي إِقْطَاعِ الْأَرَضِينَ حسن حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ الثَّقَفِيُّ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُتَوَكِّلِ الْعَسْقَلَانِيُّ الْمَعْنَى وَاحِدٌ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ يَحْيَى بْنِ قَيْسٍ الْمَأْرِبِيَّ حَدَّثَهُمْ أَخْبَرَنِي أَبِي عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ شَرَاحِيلَ عَنْ سُمَيِّ بْنِ قَيْسٍ عَنْ شُمَيْرٍ قَالَ ابْنُ الْمُتَوَكِّلِ ابْنِ عَبْدِ الْمَدَانِ عَنْ أَبْيَضَ بْنِ حَمَّالٍ أَنَّهُ وَفَدَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَقْطَعَهُ الْمِلْحَ قَالَ ابْنُ الْمُتَوَكِّلِ الَّذِي بِمَأْرِبَ فَقَطَعَهُ لَهُ فَلَمَّا أَنْ وَلَّى قَالَ رَجُلٌ مِنْ الْمَجْلِسِ أَتَدْرِي مَا قَطَعْتَ لَهُ إِنَّمَا قَطَعْتَ لَهُ الْمَاءَ الْعِدَّ قَالَ فَانْتَزَعَ مِنْهُ قَالَ وَسَأَلَهُ عَمَّا يُحْمَى مِنْ الْأَرَاكِ قَالَ مَا لَمْ تَنَلْهُ خِفَافٌ وَقَالَ ابْنُ الْمُتَوَكِّلِ أَخْفَافُ الْإِبِلِ حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الْمَخْزُومِيُّ مَا لَمْ تَنَلْهُ أَخْفَافُ الْإِبِلِ يَعْنِي أَنَّ الْإِبِلَ تَأْكُلُ مُنْتَهَى رُءُوسِهَا وَيُحْمَى مَا فَوْقَهُ
کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل
باب: زمین کے قطعات عطا کرنا
سیدنا ابیض بن حمال ؓ سے روایت ہے ‘ وہ کہتے ہیں کہ میں ایک وفد لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے نمک کی کان بطور جاگیر طلب کی جو آپ ﷺ نے دے دی ۔ ابن متوکل کہتے ہیں وہ کان مقام مارب پر تھی ۔ جب میں نے پشت پھیری تو مجلس میں سے ایک آدمی نے کہا : کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ نے اسے کیا دے دیا ہے ‘ آپ نے اسے نہ ختم ہونے والا دائمی پانی دے دیا ہے ۔ چنانچہ آپ ﷺ نے اسے واپس لے لیا ۔ پھر میں نے سوال کیا کہ پیلو کے کون سے درخت گھیرے جائیں ؟ ( اپنے قبضے میں لیے جا سکتے ہیں ) آپ ﷺ نے فرمایا ” وہ جنہیں اونٹوں کے پاؤں نہ پہنچتے ہوں ۔ “ ( آبادی سے کافی دور ہوں )
تشریح :
اس حدیث سے یہ استدلال کیاگیا ہے۔ کہ ایسی کانیں جن کے منافع ظاہر ہوں اورعام لوگوں سے متعلق ہوں وہ کسی کی خاص ملکیت میں نہیں دینی چاہیے۔بخلاف ان کے جنھیں محنت اور مشقت سے نکالا جاتا ہے۔2،۔امام کو حق ہے کہ عطیہ دے کر واپس لے لے۔3۔قاضی کا اپنے فیصلے سے رجوع کرلینا کوئی معیوب نہیں۔4۔امام اور قاضی کے مصاحبین کو چاہیے کہ جو امور ونکات ان کے سامنے واضح نہ ہوں۔ان سے انہیں مطلع کردیاکریں۔
اس حدیث سے یہ استدلال کیاگیا ہے۔ کہ ایسی کانیں جن کے منافع ظاہر ہوں اورعام لوگوں سے متعلق ہوں وہ کسی کی خاص ملکیت میں نہیں دینی چاہیے۔بخلاف ان کے جنھیں محنت اور مشقت سے نکالا جاتا ہے۔2،۔امام کو حق ہے کہ عطیہ دے کر واپس لے لے۔3۔قاضی کا اپنے فیصلے سے رجوع کرلینا کوئی معیوب نہیں۔4۔امام اور قاضی کے مصاحبین کو چاہیے کہ جو امور ونکات ان کے سامنے واضح نہ ہوں۔ان سے انہیں مطلع کردیاکریں۔