Book - حدیث 3058

كِتَابُ الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ بَابٌ فِي إِقْطَاعِ الْأَرَضِينَ صحیح حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَرْزُوقٍ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ عَنْ سِمَاكٍ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْطَعَهُ أَرْضًا بِحَضْرَمُوتَ.

ترجمہ Book - حدیث 3058

کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل باب: زمین کے قطعات عطا کرنا سیدنا علقمہ بن وائل اپنے والد ( سیدنا وائل بن حجر ؓ ) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے حضر موت کے علاقے میں ایک قطعہ زمین انہیں عطا فرمایا ۔
تشریح : امام المسلمین یا خلیفہ غیر مملوکہ غیر آباد زمینوں میں سے کوئی قطعہ کسی کو ادا کردے۔تو اس زمین کوآباد کرنے کا استحقاق اس شخص کو دوسروں سے زیاد ہ ہوگا۔اس کا یہ بھی مفہوم لیا گیا ہے۔کہ کوئی قطعہ زمین ایک خاص مدت تک کے لئے کسی کو عطا کردیا جائے۔کہ وہ اس کی آمدنی حاصل کرسکے۔امام شافعی کے نزدیک صرف بنجر زمین ہی میں سے کوئی قطعہ کسی کو دیا جاسکتا ہے۔(فتح الباری۔کتاب المساقاۃ باب القطایع ۔60/5) یہ ایک طرح سے آباد کار ی کا پروگرام ہے۔جس میں ان لوگوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔جن کی کوئی خاص خدمات ہوں۔جس طرح انصار کورسول اللہ ﷺ نے بحرین کی زمین دینی چاہیے۔اس پرانصار نے کہا کہ اتنی ہی زمین اگران کے بھائی مہاجرین کو بھی دی جائے۔تو وہ بحرین کے قطعات قبول کریں گے۔یہ جذبہ ایثار دیکھ کر ر سول اللہ ﷺ نے فرمایا کچھ عرصہ بعد تم یہ دیکھوگے کہ لوگ اپنے آپ کودوسروں پر ترجیح دے رہے ہوں گے تو تم اس پر صبرکرنا یہاں تک کہ حوض پر مجھ سے ملو (صحیح بخاری کتاب المساقاۃ۔باب القطائع۔حدیث 2376)(اثرۃ)اپنے لئے چننا اور (ایثار )دوسروں کے لئے چننا ہے۔بعض اوقات کسی مستحق کو کوئی قطعہ زمین عطا کیا جاتا تھا۔ ان کی مذید مثالیں سنن ابو دائود کی آئندہ احادیث میں سامنے آیئں گی۔ یہ بعد کے جاگیرداری نظام سے مختلف ہے۔ جس میں اچھی اورآباد زمین لوگوں کی فرمابنرداریاں خریدنے کےلئے دی جاتی تھیں۔اورجاگیروں کے ساتھ اس علاقے میں رہنے والے انسانوں کو بھی جاگیردارون کامملوک اور غلام بنادیا جاتا تھا۔ اسلام میں اس غرض سے جاگیریں دینے کا بھی کوئی تصور موجود نہیں۔کہ ان کے آمدنی کے ذریعے سے لشکر کھڑے کئے جاییں۔اورعند الطلب بادشاہ وغیرہ کو پیش کیے جایئں۔کیونکہ اسلامی فوج بنیادی طور پر فریضہ جہاد کی ادایئگی کےلئے منظم ہوتی ہے۔البتہ غنائم کے طور پر جو زمینیں حاصل ہوں۔انہیں خمس نکالنے کے بعد تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ اس سے جاگیرداری نظام وجود میں نہیں آتا۔ کیونکہ یہ سب کے حصے میں آتی ہیں۔اور چھوٹے چھوٹے قطعوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔اس تقسیم میں سپہ سالار اور تمام سپاہی مساوی ہوتے ہیں۔کسی سالار کواس کی خدمات کے عوض بڑی بڑی جاگیر بھی دینے کی کوئی گنجائش نہیں۔ اموی بادشاہت میں جاگیریں دی جانے لگیں۔حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی آبائی جاگیر سمیت ایسی سب جاگیریں منسوخ کردیں۔بعد میں یہ خرابی پھر سے شروع ہوگئی۔لیکن اسلامی احکام پرعمل کرنے والے حکمران اس سے دور رہے ایسے حکمرانوں میں سلطان صلاح الدین ایوبی کانام بھی شامل ہے۔جو محض معمولی سی تنخواہ پر گزارہ کرنے کی وجہ سے ہمیشہ مقروض رہتے تھے۔ امام المسلمین یا خلیفہ غیر مملوکہ غیر آباد زمینوں میں سے کوئی قطعہ کسی کو ادا کردے۔تو اس زمین کوآباد کرنے کا استحقاق اس شخص کو دوسروں سے زیاد ہ ہوگا۔اس کا یہ بھی مفہوم لیا گیا ہے۔کہ کوئی قطعہ زمین ایک خاص مدت تک کے لئے کسی کو عطا کردیا جائے۔کہ وہ اس کی آمدنی حاصل کرسکے۔امام شافعی کے نزدیک صرف بنجر زمین ہی میں سے کوئی قطعہ کسی کو دیا جاسکتا ہے۔(فتح الباری۔کتاب المساقاۃ باب القطایع ۔60/5) یہ ایک طرح سے آباد کار ی کا پروگرام ہے۔جس میں ان لوگوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔جن کی کوئی خاص خدمات ہوں۔جس طرح انصار کورسول اللہ ﷺ نے بحرین کی زمین دینی چاہیے۔اس پرانصار نے کہا کہ اتنی ہی زمین اگران کے بھائی مہاجرین کو بھی دی جائے۔تو وہ بحرین کے قطعات قبول کریں گے۔یہ جذبہ ایثار دیکھ کر ر سول اللہ ﷺ نے فرمایا کچھ عرصہ بعد تم یہ دیکھوگے کہ لوگ اپنے آپ کودوسروں پر ترجیح دے رہے ہوں گے تو تم اس پر صبرکرنا یہاں تک کہ حوض پر مجھ سے ملو (صحیح بخاری کتاب المساقاۃ۔باب القطائع۔حدیث 2376)(اثرۃ)اپنے لئے چننا اور (ایثار )دوسروں کے لئے چننا ہے۔بعض اوقات کسی مستحق کو کوئی قطعہ زمین عطا کیا جاتا تھا۔ ان کی مذید مثالیں سنن ابو دائود کی آئندہ احادیث میں سامنے آیئں گی۔ یہ بعد کے جاگیرداری نظام سے مختلف ہے۔ جس میں اچھی اورآباد زمین لوگوں کی فرمابنرداریاں خریدنے کےلئے دی جاتی تھیں۔اورجاگیروں کے ساتھ اس علاقے میں رہنے والے انسانوں کو بھی جاگیردارون کامملوک اور غلام بنادیا جاتا تھا۔ اسلام میں اس غرض سے جاگیریں دینے کا بھی کوئی تصور موجود نہیں۔کہ ان کے آمدنی کے ذریعے سے لشکر کھڑے کئے جاییں۔اورعند الطلب بادشاہ وغیرہ کو پیش کیے جایئں۔کیونکہ اسلامی فوج بنیادی طور پر فریضہ جہاد کی ادایئگی کےلئے منظم ہوتی ہے۔البتہ غنائم کے طور پر جو زمینیں حاصل ہوں۔انہیں خمس نکالنے کے بعد تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ اس سے جاگیرداری نظام وجود میں نہیں آتا۔ کیونکہ یہ سب کے حصے میں آتی ہیں۔اور چھوٹے چھوٹے قطعوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔اس تقسیم میں سپہ سالار اور تمام سپاہی مساوی ہوتے ہیں۔کسی سالار کواس کی خدمات کے عوض بڑی بڑی جاگیر بھی دینے کی کوئی گنجائش نہیں۔ اموی بادشاہت میں جاگیریں دی جانے لگیں۔حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی آبائی جاگیر سمیت ایسی سب جاگیریں منسوخ کردیں۔بعد میں یہ خرابی پھر سے شروع ہوگئی۔لیکن اسلامی احکام پرعمل کرنے والے حکمران اس سے دور رہے ایسے حکمرانوں میں سلطان صلاح الدین ایوبی کانام بھی شامل ہے۔جو محض معمولی سی تنخواہ پر گزارہ کرنے کی وجہ سے ہمیشہ مقروض رہتے تھے۔