Book - حدیث 3037

كِتَابُ الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ بَابٌ فِي أَخْذِ الْجِزْيَةِ حسن حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي زَائِدَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَعَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ إِلَى أُكَيْدِرِ دُومَةَ فَأُخِذَ فَأَتَوْهُ بِهِ فَحَقَنَ لَهُ دَمَهُ وَصَالَحَهُ عَلَى الْجِزْيَةِ

ترجمہ Book - حدیث 3037

کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل باب: جزیہ لینے کے احکام و مسائل جناب عاصم بن عمر ؓ ، سیدنا انس بن مالک ؓ سے مرفوعاً اور جناب عثمان بن ابی سلیمان ؓ سے موقوفاً روایت کرتے ہیں کہ بی کریم ﷺ نے سیدنا خالد بن ولید ( اور کچھ دوسرے صحابہ ؓم ) کو دومہ کے بادشاہ اکیدر کی طرف روانہ کیا ، تو انہوں نے اسے پکڑ لیا اور ( نبی کریم ﷺ کے پاس ) لے آئے ۔ تو آپ ﷺ نے اس کا خون معاف کر دیا اور جزیہ کی ادائیگی پر صلح کر لی ۔
تشریح : مملکت اسلامیہ اپنی غیر مسلم رعایا سے ایک ٹیکس لیتی ہے۔جو ان کی وہاں سہولت ورہائش اور ان کی جانوں مالوں اور عزتوں کی حفاظت کرنے کے بدلے میں لے لیا جاتاہے۔اور وہ سرحدوں کی حفاظت اور (دفاع) قتال جیسی زمہ داریوں کے مکلف نہیں ہوتے۔اسی ٹیکس کو جزیہ کہا جاتاہے۔قرآن کریم میں ارشاد ہے۔ ( قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّـهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ) (التوبہ ۔29) قتال کرو ان سے جو اللہ پرایمان نہیں لاتے۔اور نہ قیامت کو تسلیم کرتے ہیں۔ اور نہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی حرام کردہ چیزوں کوحرام گردانتے ہیں۔اورنہ سچے دین کے تابع ہوتے ہیں۔ یعنی وہ لوگ جنہیں کتاب دی گئی۔ (ان سے قتال کرتے رہو)حتیٰ کہ اپنے ہاتھوں سے زلیل ہوتےہوئے جزیہ ادا کریں۔ مسلمان سوسائٹی کی بہبود کےلئےذکواۃ ادا کرتے ہیں۔یہ ایک اعزاز ہے۔ غیر مسلم رعایا سے ذکواۃ وصول نہیں کی جاتی۔ بلکہ اس سے کم مقدار میں جزیہ وصول کیاجاتاہے۔2۔اکید روومہ غسانی عرب تھا۔اور یہ دلیل ہے کہ غیرمسلم عرب سے بھی جزیہ لینا ضروری ہے۔جیسے کہ عجمیوں سے لیاجاتا ہے۔ مملکت اسلامیہ اپنی غیر مسلم رعایا سے ایک ٹیکس لیتی ہے۔جو ان کی وہاں سہولت ورہائش اور ان کی جانوں مالوں اور عزتوں کی حفاظت کرنے کے بدلے میں لے لیا جاتاہے۔اور وہ سرحدوں کی حفاظت اور (دفاع) قتال جیسی زمہ داریوں کے مکلف نہیں ہوتے۔اسی ٹیکس کو جزیہ کہا جاتاہے۔قرآن کریم میں ارشاد ہے۔ ( قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّـهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ) (التوبہ ۔29) قتال کرو ان سے جو اللہ پرایمان نہیں لاتے۔اور نہ قیامت کو تسلیم کرتے ہیں۔ اور نہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی حرام کردہ چیزوں کوحرام گردانتے ہیں۔اورنہ سچے دین کے تابع ہوتے ہیں۔ یعنی وہ لوگ جنہیں کتاب دی گئی۔ (ان سے قتال کرتے رہو)حتیٰ کہ اپنے ہاتھوں سے زلیل ہوتےہوئے جزیہ ادا کریں۔ مسلمان سوسائٹی کی بہبود کےلئےذکواۃ ادا کرتے ہیں۔یہ ایک اعزاز ہے۔ غیر مسلم رعایا سے ذکواۃ وصول نہیں کی جاتی۔ بلکہ اس سے کم مقدار میں جزیہ وصول کیاجاتاہے۔2۔اکید روومہ غسانی عرب تھا۔اور یہ دلیل ہے کہ غیرمسلم عرب سے بھی جزیہ لینا ضروری ہے۔جیسے کہ عجمیوں سے لیاجاتا ہے۔