Book - حدیث 3026

كِتَابُ الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ بَابُ مَا جَاءَ فِي خَبَرِ الطَّائِفِ ضعیف حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ سُوَيْدٍ يَعْنِي ابْنَ مَنْجُوفٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ أَنَّ وَفْدَ ثَقِيفٍ لَمَّا قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْزَلَهُمْ الْمَسْجِدَ لِيَكُونَ أَرَقَّ لِقُلُوبِهِمْ فَاشْتَرَطُوا عَلَيْهِ أَنْ لَا يُحْشَرُوا وَلَا يُعْشَرُوا وَلَا يُجَبَّوْا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَكُمْ أَنْ لَا تُحْشَرُوا وَلَا تُعْشَرُوا وَلَا خَيْرَ فِي دِينٍ لَيْسَ فِيهِ رُكُوعٌ

ترجمہ Book - حدیث 3026

کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل باب: طائف کا بیان سیدنا عثمان بن ابی العاص ؓ سے روایت ہے کہ قبیلہ ثقیف کا وفد جب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے انہیں مسجد ( مسجد نبوی ) میں ٹھہرایا تاکہ یہ ان کے دلوں کو زیادہ نرم کرنے کا باعث ہو ، چنانچہ ان لوگوں نے یہ شرط کی کہ انہیں جہاد کے لیے نہیں بلایا جائے گا ، نہ ان سے صدقات لیے جائیں گے اور نہ یہ لوگ نماز پڑھیں گے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” یہ تو ہو سکتا ہے کہ تمہیں جہاد کے لیے نہ بلایا جائے یا صدقات نہ لیے جائیں مگر اس دین میں کوئی خیر نہیں جس میں رکوع ( نماز ) نہ ہو ۔ “
تشریح : یہ روایت سندا ضعیف ہے۔مگر دیگر احادیث سے یہ بات ثابت ہے۔کہ امیر المسلمین کی اجازت سے کافروں کی مسجد میں یا حرم مکہ یا مدینہ میں آجاناجائز ہے۔2۔جوشخص نماز کا اہتمام نہیں کرتا۔ اس کا کوئی دین نہیں۔خواہ وہ کتنے ہی اخلاق وکردار کا مالک ہو۔کیونکہ وہ اللہ سے بندگی کا تعلق نہیں رکھتا۔جہاد اورصدقات اپنے وقت پر لاگو ہوتے ہیں۔اور ان کا ابھی وقت نہ تھا۔البتہ نماز ہر روز اور اپنے وقت پر فرض تھی۔ اس لئے اس میں چھوٹ دینا قبول نہیں فرمایا۔ یہ روایت سندا ضعیف ہے۔مگر دیگر احادیث سے یہ بات ثابت ہے۔کہ امیر المسلمین کی اجازت سے کافروں کی مسجد میں یا حرم مکہ یا مدینہ میں آجاناجائز ہے۔2۔جوشخص نماز کا اہتمام نہیں کرتا۔ اس کا کوئی دین نہیں۔خواہ وہ کتنے ہی اخلاق وکردار کا مالک ہو۔کیونکہ وہ اللہ سے بندگی کا تعلق نہیں رکھتا۔جہاد اورصدقات اپنے وقت پر لاگو ہوتے ہیں۔اور ان کا ابھی وقت نہ تھا۔البتہ نماز ہر روز اور اپنے وقت پر فرض تھی۔ اس لئے اس میں چھوٹ دینا قبول نہیں فرمایا۔