Book - حدیث 3022

كِتَابُ الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ بَابُ مَا جَاءَ فِي خَبَرِ مَكَّةَ حسن حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو الرَّازِيُّ حَدَّثَنَا سَلَمَةُ يَعْنِي ابْنَ الْفَضْلِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْبَدٍ عَنْ بَعْضِ أَهْلِهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَمَّا نَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ الظَّهْرَانِ قَالَ الْعَبَّاسُ قُلْتُ وَاللَّهِ لَئِنْ دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ عَنْوَةً قَبْلَ أَنْ يَأْتُوهُ فَيَسْتَأْمِنُوهُ إِنَّهُ لَهَلَاكُ قُرَيْشٍ فَجَلَسْتُ عَلَى بَغْلَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ لَعَلِّي أَجِدُ ذَا حَاجَةٍ يَأْتِي أَهْلَ مَكَّةَ فَيُخْبِرُهُمْ بِمَكَانِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَخْرُجُوا إِلَيْهِ فَيَسْتَأْمِنُوهُ فَإِنِّي لَأَسِيرُ إِذْ سَمِعْتُ كَلَامَ أَبِي سُفْيَانَ وَبُدَيْلِ بْنِ وَرْقَاءَ فَقُلْتُ يَا أَبَا حَنْظَلَةَ فَعَرَفَ صَوْتِي فَقَالَ أَبُو الْفَضْلِ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ مَا لَكَ فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي قُلْتُ هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ قَالَ فَمَا الْحِيلَةُ قَالَ فَرَكِبَ خَلْفِي وَرَجَعَ صَاحِبُهُ فَلَمَّا أَصْبَحَ غَدَوْتُ بِهِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبَا سُفْيَانَ رَجُلٌ يُحِبُّ هَذَا الْفَخْرَ فَاجْعَلْ لَهُ شَيْئًا قَالَ نَعَمْ مَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِي سُفْيَانَ فَهُوَ آمِنٌ وَمَنْ أَغْلَقَ عَلَيْهِ دَارَهُ فَهُوَ آمِنٌ وَمَنْ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَهُوَ آمِنٌ قَالَ فَتَفَرَّقَ النَّاسُ إِلَى دُورِهِمْ وَإِلَى الْمَسْجِدِ

ترجمہ Book - حدیث 3022

کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل باب: فتح مکہ کا بیان سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے جب مرالظہران کے مقام پر پڑاؤ ڈالا ‘ تو سیدنا عباس ؓ نے کہا : اللہ کے قسم ! اگر رسول اللہ ﷺ اپنی قوت کے زور پر مکہ میں داخل ہو گئے اور اس سے پہلے اہل مکہ آپ ﷺ کے پاس نہ آئے اور امان نہ مانگی تو اس میں قریش کی بہت بڑی ہلاکت ہے ‘ چنانچہ میں رسول اللہ ﷺ کے خچر پر بیٹھ کر باہر نکلا ‘ میں نے سوچا شاید مجھے کوئی شخص مل جائے جو کسی کام سے نکلا ہو تو وہ اہل مکہ کے پاس جائے ‘ انہیں رسول اللہ ﷺ کی آمد کے متعلق خبردار کر دے اور وہ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو جائیں اور امان طلب کر لیں ۔ چنانچہ میں چلا جا رہا تھا کہ ابوسفیان اور بدیل بن ورقاء کو گفتگو کرتے سنا ۔ میں نے کہا : اے ابوحنظلہ ! ( یہ سیدنا ابوسفیان ؓ کی کنیت ہے ) اس نے میری آواز پہچان لی اور کہا : ابوالفضل ؟ ( یہ سیدنا عباس ؓ کی کنیت ہے ) میں نے کہا : ہاں ، اس نے کہا : کیا ہوا ؟ میرے ماں باپ تجھ پر فدا ۔ میں نے کہا : یہ اللہ کے رسول ہیں اور لوگ بھی آپ ﷺ کے ساتھ ہیں ۔ اس نے پوچھا : تو اب کیا حیلہ ہے ؟ چنانچہ ابوسفیان میرے پیچھے خچر پر بیٹھ گیا اور اس کا دوسرا ساتھی واپس چلا گیا ۔ جب صبح ہوئی تو میں اسے لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو اور اس نے اسلام قبول کر لیا ۔ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! ابوسفیان ایسا آدمی ہے جسے فخر اور بڑائی پسند ہے تو آپ اس کے لیے کوئی چیز خاص فر دیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ” ہاں ‘ جو شخص ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو جائے اسے امان ہے ‘ جو شخص اپنے گھر کا دروازہ بند کر لے اسے امان ہے ‘ اور جو شخص مسجد میں داخل ہو جائے اسے امان ہے ۔ “ سیدنا عباس ؓ نے بیان کیا : پھر لوگ اپنے گھروں اور مسجد میں بکھر گئے ۔
تشریح : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے وسعت ظرف بلند نگاہی اور اشاعت اسلام کے عظیم مقصد کے پیش نظر ابو سفیان کی گزشتہ تمام زیادتیاں فراموش کردیں۔ بلکہ ان کا اسلام قبول فرمایا بلکہ اعزاز بھی دیا۔قائد وہی کامیاب ہے جو اپنے لوگوں سے ان کے مزاج کے مطابق مشن کی تکمیل کےلئے کام لے۔2۔اسلامی تعلیمات میں عمومی طور پرتواضح انکساری۔اور گمنامی کی مدح اور ترغیب ہے۔مگر کچھ طبعتیں ا سکے بالمقابل دوسری صفات کی حامل ہوتی ہیں جو اگر اسلام اور مسلمانوں کےلئے استعمال ہوں تو بہت خوب ہے۔چنانچہ حضرت ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ صفات اسلام اور مسلمانوں کے حق میں بہت مفید ثابت ہویئں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے وسعت ظرف بلند نگاہی اور اشاعت اسلام کے عظیم مقصد کے پیش نظر ابو سفیان کی گزشتہ تمام زیادتیاں فراموش کردیں۔ بلکہ ان کا اسلام قبول فرمایا بلکہ اعزاز بھی دیا۔قائد وہی کامیاب ہے جو اپنے لوگوں سے ان کے مزاج کے مطابق مشن کی تکمیل کےلئے کام لے۔2۔اسلامی تعلیمات میں عمومی طور پرتواضح انکساری۔اور گمنامی کی مدح اور ترغیب ہے۔مگر کچھ طبعتیں ا سکے بالمقابل دوسری صفات کی حامل ہوتی ہیں جو اگر اسلام اور مسلمانوں کےلئے استعمال ہوں تو بہت خوب ہے۔چنانچہ حضرت ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ صفات اسلام اور مسلمانوں کے حق میں بہت مفید ثابت ہویئں۔