Book - حدیث 3021

كِتَابُ الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ بَابُ مَا جَاءَ فِي خَبَرِ مَكَّةَ حسن حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفَتْحِ جَاءَهُ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بِأَبِي سُفْيَانَ بْنِ حَرْبٍ فَأَسْلَمَ بِمَرِّ الظَّهْرَانِ فَقَالَ لَهُ الْعَبَّاسُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبَا سُفْيَانَ رَجُلٌ يُحِبُّ هَذَا الْفَخْرِ فَلَوْ جَعَلْتَ لَهُ شَيْئًا قَالَ نَعَمْ مَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِي سُفْيَانَ فَهُوَ آمِنٌ وَمَنْ أَغْلَقَ عَلَيْهِ بَابَهُ فَهُوَ آمِنٌ

ترجمہ Book - حدیث 3021

کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل باب: فتح مکہ کا بیان سیدنا ابن عباس ؓ کا بیان ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر سیدنا عباس بن عبدالمطلب ؓ ابوسفیان بن حرب کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے آئے چنانچہ انہوں نے مرالظہران کے مقام پر اسلام قبول کر لیا ۔ سیدنا عباس ؓ نے کہا اے اللہ کے رسول ابوسفیان ایسا آدمی ہے جسے فخر اور بڑائی پسند ہے اگر آپ ﷺ اس کے لیے کوئی چیز خاص فر دیں تو ( مناسب ہو گا ۔ ) آپ ﷺ نے فرمایا ہاں جو شخص ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو جائے اسے امان ہے اور جو اپنے گھر میں دروازہ بند کر کے بیٹھ رہے وہ امان میں ہے ۔
تشریح : ذوالقعدہ 6 ہجری میں حدیبیہ کے مقام پر مسلمانوں اور قریش مکہ کے درمیان یہ معاہدہ ہوا تھا۔ کہ دس سال تک فریقین جنگ بند رکھیں گے۔اس عرصے میں لوگ ہرطرح سے امن میں رہیں گے۔اور کوئی کسی پرہاتھ نہیں اٹھائے گا۔ مگر بنوبکر (حلیف قریش) نے بنو خزاعہ (حلیف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) پر حملہ کیا۔جس میں قریشیوں نے در پردہ اپنے حلیفوں کی بھر پور مد د کی اور مسلمانوں کے حلیف قبیلہ کو قتل کیا گیا۔ اور کئی آدمی توحرم کے اندرقتل کئے گئے۔ اس طرح یہ معاہدہ ٹوٹ گیا۔تب مسلمانوں نے بہت اچھی حکمت عملی اپنا کر مکہ فتح کرلیا۔اور پھر پورے جزیرۃ العرب پر اسلام کا پھریرا لہرانے لگا۔یہ واقعہ 8 ہجری کا ہے۔(جس کی تفصیل الرحیق المختوم علامہ صفی الرحمٰن مبارک پوری اور سیرت کی دیگر کتب میں وقت نظر سے مطالعہ کا لائق ہے۔) ذوالقعدہ 6 ہجری میں حدیبیہ کے مقام پر مسلمانوں اور قریش مکہ کے درمیان یہ معاہدہ ہوا تھا۔ کہ دس سال تک فریقین جنگ بند رکھیں گے۔اس عرصے میں لوگ ہرطرح سے امن میں رہیں گے۔اور کوئی کسی پرہاتھ نہیں اٹھائے گا۔ مگر بنوبکر (حلیف قریش) نے بنو خزاعہ (حلیف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) پر حملہ کیا۔جس میں قریشیوں نے در پردہ اپنے حلیفوں کی بھر پور مد د کی اور مسلمانوں کے حلیف قبیلہ کو قتل کیا گیا۔ اور کئی آدمی توحرم کے اندرقتل کئے گئے۔ اس طرح یہ معاہدہ ٹوٹ گیا۔تب مسلمانوں نے بہت اچھی حکمت عملی اپنا کر مکہ فتح کرلیا۔اور پھر پورے جزیرۃ العرب پر اسلام کا پھریرا لہرانے لگا۔یہ واقعہ 8 ہجری کا ہے۔(جس کی تفصیل الرحیق المختوم علامہ صفی الرحمٰن مبارک پوری اور سیرت کی دیگر کتب میں وقت نظر سے مطالعہ کا لائق ہے۔)