Book - حدیث 3004

كِتَابُ الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ بَابٌ فِي خَبَرِ النَّضِيرِ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ سُفْيَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ كُفَّارَ قُرَيْشٍ كَتَبُوا إِلَى ابْنِ أُبَيٍّ وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ مَعَهُ الْأَوْثَانَ مِنْ الْأَوْسِ وَالْخَزْرَجِ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ بِالْمَدِينَةِ قَبْلَ وَقْعَةِ بَدْرٍ إِنَّكُمْ آوَيْتُمْ صَاحِبَنَا وَإِنَّا نُقْسِمُ بِاللَّهِ لَتُقَاتِلُنَّهُ أَوْ لَتُخْرِجُنَّهُ أَوْ لَنَسِيرَنَّ إِلَيْكُمْ بِأَجْمَعِنَا حَتَّى نَقْتُلَ مُقَاتِلَتَكُمْ وَنَسْتَبِيحَ نِسَاءَكُمْ فَلَمَّا بَلَغَ ذَلِكَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ وَمَنْ كَانَ مَعَهُ مِنْ عَبَدَةِ الْأَوْثَانِ اجْتَمَعُوا لِقِتَالِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا بَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقِيَهُمْ فَقَالَ لَقَدْ بَلَغَ وَعِيدُ قُرَيْشٍ مِنْكُمْ الْمَبَالِغَ مَا كَانَتْ تَكِيدُكُمْ بِأَكْثَرَ مِمَّا تُرِيدُونَ أَنْ تَكِيدُوا بِهِ أَنْفُسَكُمْ تُرِيدُونَ أَنْ تُقَاتِلُوا أَبْنَاءَكُمْ وَإِخْوَانَكُمْ فَلَمَّا سَمِعُوا ذَلِكَ مِنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَفَرَّقُوا فَبَلَغَ ذَلِكَ كُفَّارَ قُرَيْشٍ فَكَتَبَتْ كُفَّارُ قُرَيْشٍ بَعْدَ وَقْعَةِ بَدْرٍ إِلَى الْيَهُودِ إِنَّكُمْ أَهْلُ الْحَلْقَةِ وَالْحُصُونِ وَإِنَّكُمْ لَتُقَاتِلُنَّ صَاحِبَنَا أَوْ لَنَفْعَلَنَّ كَذَا وَكَذَا وَلَا يَحُولُ بَيْنَنَا وَبَيْنَ خَدَمِ نِسَائِكُمْ شَيْءٌ وَهِيَ الْخَلَاخِيلُ فَلَمَّا بَلَغَ كِتَابُهُمْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْمَعَتْ بَنُو النَّضِيرِ بِالْغَدْرِ فَأَرْسَلُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اخْرُجْ إِلَيْنَا فِي ثَلَاثِينَ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِكَ وَلْيَخْرُجْ مِنَّا ثَلَاثُونَ حَبْرًا حَتَّى نَلْتَقِيَ بِمَكَانِ الْمَنْصَفِ فَيَسْمَعُوا مِنْكَ فَإِنْ صَدَّقُوكَ وَآمَنُوا بِكَ آمَنَّا بِكَ فَقَصَّ خَبَرَهُمْ فَلَمَّا كَانَ الْغَدُ غَدَا عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْكَتَائِبِ فَحَصَرَهُمْ فَقَالَ لَهُمْ إِنَّكُمْ وَاللَّهِ لَا تَأْمَنُونَ عِنْدِي إِلَّا بِعَهْدٍ تُعَاهِدُونِي عَلَيْهِ فَأَبَوْا أَنْ يُعْطُوهُ عَهْدًا فَقَاتَلَهُمْ يَوْمَهُمْ ذَلِكَ ثُمَّ غَدَا الْغَدُ عَلَى بَنِي قُرَيْظَةَ بِالْكَتَائِبِ وَتَرَكَ بَنِي النَّضِيرِ وَدَعَاهُمْ إِلَى أَنْ يُعَاهِدُوهُ فَعَاهَدُوهُ فَانْصَرَفَ عَنْهُمْ وَغَدَا عَلَى بَنِي النَّضِيرِ بِالْكَتَائِبِ فَقَاتَلَهُمْ حَتَّى نَزَلُوا عَلَى الْجَلَاءِ فَجَلَتْ بَنُو النَّضِيرِ وَاحْتَمَلُوا مَا أَقَلَّتْ الْإِبِلُ مِنْ أَمْتِعَتِهِمْ وَأَبْوَابِ بُيُوتِهِمْ وَخَشَبِهَا فَكَانَ نَخْلُ بَنِي النَّضِيرِ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاصَّةً أَعْطَاهُ اللَّهُ إِيَّاهَا وَخَصَّهُ بِهَا فَقَالَ وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ يَقُولُ بِغَيْرِ قِتَالٍ فَأَعْطَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكْثَرَهَا لِلْمُهَاجِرِينَ وَقَسَمَهَا بَيْنَهُمْ وَقَسَمَ مِنْهَا لِرَجُلَيْنِ مِنْ الْأَنْصَارِ وَكَانَا ذَوِي حَاجَةٍ لَمْ يَقْسِمْ لِأَحَدٍ مِنْ الْأَنْصَارِ غَيْرِهِمَا وَبَقِيَ مِنْهَا صَدَقَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّتِي فِي أَيْدِي بَنِي فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا

ترجمہ Book - حدیث 3004

کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل باب: یہود بنو نضیر کا واقعہ سیدنا عبدالرحمٰن بن کعب بن مالک ، نبی کریم ﷺ کے ایک صحابی کے واسطے سے بیان کرتے ہیں کہ قریش مکہ نے عبداللہ بن ابی ( منافق ) اور اس کے ہم نوا اوس و خزرج کے دوسرے بت پرست لوگوں کے خط لکھا ‘ جبکہ رسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ تشریف لا چکے تھے اور یہ بدر سے پہلے کا واقعہ ہے ۔ انہوں نے لکھا کہ تم لوگوں نے ہمارے آدمی کو پناہ دے رکھی ہے اور ہم اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ تم لوگ اس سے جنگ کرو یا اسے ( اپنے ہاں سے ) نکال باہر کرو ‘ ورنہ ہم سب مل کر تم پر دھاوا بولیں گے یہاں تک کہ تمہارے جوانوں کو قتل کر دیں گے اور تمہاری عورتوں کو اپنے قبضے میں لے آئیں گے ۔ یہ خط جب عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھی بت پرستوں کو پہنچا تو وہ لوگ رسول اللہ ﷺ سے جنگ کے لیے اکٹھے ہو گئے ۔ نبی کریم ﷺ کو جب یہ خبر پہنچی تو آپ ﷺ نے ان سے ملاقات کی اور فرمایا ” قریش کی دھمکی سے تم لوگ بہت زیادہ متاثر ہو گئے ہو اور وہ تمہارا اس سے زیادہ نقصان نہیں کر سکتے جتنا کہ تم اپنے ہاتھوں خود کر بیٹھنا چاہتے ہو ۔ کیا تم اپنے بیٹوں اور اپنے بھائیوں سے قتال کرنا چاہتے ہو ؟ “ جب انہوں نے نبی کریم ﷺ سے یہ بات سنی ( اور اس کی حقیقت کو سمجھ گئے ) تو وہ تتر بتر ہو گئے ۔ کفار قریش کو یہ خبر ملی تو انہوں نے واقعہ بدر کے بعد یہودیوں کو لکھا کہ تم لوگ اسلحہ اور قلعوں کے مالک ہو ۔ تم لوگ یا تو لازماً ہمارے آدمی سے جنگ کرو ورنہ ہم ایسے اور ایسے کریں گے اور پھر ہمارے اور تمہاری عورتوں کی پازیبوں کے درمیان کوئی حائل نہ ہو سکے گا ( یعنی مردوں کو قتل کر دیں گے اور عورتوں کو لونڈیاں بنا لیں گے ) ۔ جب ان کے لکھے کی خبر نبی کریم ﷺ کے پاس پہنچ گئی تو اس اثنا میں بنو نضیر نے بھی ( رسول اللہ ﷺ سے ) دھوکہ کرنے کا قصد کیا ۔ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو کہلا بھیجا کہ آپ اپنے تیس اصحاب کے ساتھ ہمارے طرف آئیں اور ہم میں سے تیس عالم آئیں اور ایک درمیانی جگہ میں ملیں ۔ یہ لوگ آپ کی بات سنیں ‘ اگر انہوں نے آپ کی تصدیق کی اور آپ پر ایمان لے آئے تو ہم بھی آپ پر ایمان لے آئیں گے ۔ پس نبی کریم ﷺ نے ( لوگوں کو ) ان کی خبر بتا دی ۔ جب اگلا دن ہوا ‘ تو رسول اللہ ﷺ لشکر لے کر گئے اور ان کا گھیراؤ کر لیا اور ان سے کہا : ” اللہ کی قسم ! تم لوگوں پر مجھے کوئی اعتماد نہیں الا یہ کہ ایک ( نئے ) عہد کے ذریعے سے جو تم ( نئے سرے سے ) میرے ساتھ کرو ۔ “ ان لوگوں نے عہد و پیمان دینے سے انکار کر دیا ۔ تو آپ ﷺ نے اس دن ان سے قتال کیا ۔ پھر اگلے دن لشکر لے کر ان بنو قریظہ پر چڑھائی کی اور بنو نضیر کو چھوڑ دیا ۔ آپ ﷺ نے ان ( بنو قریظہ ) سے مطالبہ کیا کہ وہ ( نئے سرے سے ) عہد و پیمان کریں ‘ انہوں نے معاہدہ کر لیا ۔ اور آپ ﷺ نے ان سے توجہ ہٹائی ۔ اور ( اگلے دن دوبارہ ) بنو نضیر پر لشکر لے کر چڑھائی کی اور ان سے قتال کیا حتیٰ کہ وہ جلا وطنی پر راضی ہو گئے ۔ چنانچہ بنو نضیر جلا وطن ہو گئے ‘ اور جو وہ اٹھا سکتے تھے گھر کا اسباب ‘ گھروں کے دروازے ‘ شہتیر اور کڑیاں وغیرہ اونٹوں پر لاد لیں ۔ چنانچہ بنو نضیر کی کھجوریں بطور خاص رسول اللہ ﷺ کی تحویل میں آ گئیں ۔ اللہ نے وہ آپ ﷺ کو عنایت فرمائیں ۔ اور آپ ﷺ کے لیے مخصوص کر دیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا «و أفاء الله على رسوله منهم ف أوجفتم عليه من خيل ولا ركاب» ” اور اللہ نے ان میں سے جو کچھ اپنے رسول کو دلوایا ہے تم نے اس پر کوئی گھوڑے یا اونٹ نہیں دوڑائے ( بغیر قتال کے حاصل ہوا ہے ) ۔ “ نبی کریم ﷺ نے اس کا اکثر حصہ مہاجرین میں تقسیم فر دیا اور انصاریوں میں سے صرف دو آدمیوں کو دیا جو حاجت مند تھے ‘ ان کے علاوہ کسی انصاری کو کچھ نہیں دیا ۔ اور رسول اللہ ﷺ کے صدقہ میں سے یہی باقی ہے جو بنو فاطمہ ؓا کے قبضے میں ہے ۔
تشریح : 1۔قریش مکہ کی دھمکی کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے ان کو سمجھایا کے بیرونی دشمن کے حملہ آور ہونے سے بھی خون ریزی ہواکرتی ہے۔ مگر اسکے بالمقابل قوم آپس میں گھتم گھتا ہوجائے۔ اور اپنے ہاتھوں اپنے عزیزوں کو قتل یا بے آبرو کرنے لگےتواس میں رسوائی زیاد ہ ہے۔ اگر قریش نے حملہ کیا تو بھی مسلمان ان کامقابلہ کرنے میں پیش پیش ہوں گے۔ اس لئے انھیں گھبرانا اور مرعوب نہیں ہونا چاہیے۔ اور اپنے مسلمان عزیزوں کے درپےآذاد ہوجانا کسی طرح دانشمندی نہیں۔2۔یہودیوں کی پیش کش۔پھر ملاقات اوربعدازاں قتال کے سلسلے میں علامہ سیوطی نے لکھا ہے کہ اور یہ روایت مصنف عبدالرزاق میں بھی ہے۔ کہ رسول اللہ ﷺ اپنے تیس صحابہ کو لے کر چلے اوران کے بھی تیس عالم آئے۔ مگروہبہت مرعوب ہوئے۔ اور ان میں سے کچھ نے کہاکہ مسلمانوں سے یہ یوں کیاجائے کہ ساٹھ باسٹھ افراد کے اس جمگھٹے میں بات سمجھنی سمجھانی مشککل ہوگی۔اس لئے آپ اپنے تین صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کو لے کرآیئں۔ اور ہم بھی تین علماء کو لاتے ہیں۔ اگر یہ مان گئے تو ہم مسلمان ہوجایئں گے۔چنانچہ رسول اللہ ﷺ اپنے تین صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کو لے کرچلے اور وہ بھی تین کولے کر چلے۔ مگر وہ اسلحہ بند تھے اور ان کا خفیہ پروگرام یہ تھا کہ یوں ھوکے سے آپﷺ کو قتل کردیں گے۔بنو نضیر میں سے ایک خیر خواہ عورت نے اپنے مسلمان بھائی کو پیغام بھیجا کہ ان لوگوں کا پروگرام ایسا ہی ہے۔ تو وہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ جلدی سے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔قبل اس کے کہ آپ ان کی مجلس میں پہنچں۔تو آپ نے اس ملاقات سے انکار کردیا۔ اوراس غداری کا پردہ کھلنے کے بعد اگلے دن ان کا محاصرہ فرمالیا۔(بزل المجہود)3۔شروع ایام میں ہجرت میں یہود سے میشاق مدینہ کا معاہدہ ہوچکاتھا۔مگر وہ اس کے پابند نہیں رہے تھے۔ اس لئے موقع بہ موقع نئے عہد وپیمان کی ضرورت پیش آتی رہی۔یہ قوم غداری میں معروف تھی بلکہ اب بھی ہے۔ اور پھر بالاخر غدار ی کی وجہ سے انہیں مدینہ بدر ہونا پڑا۔ اور یہ واقعہ بدر کے چھ ماہ بعد جنگ احد سے پہلے کا ہے۔2۔زمی اور معاہد جب اپنے عہد کی پاسداری نہ کرے تو وہ حربی بن جاتا ہے۔ اور پھر اس سے قتال جائز ہوتاہے۔5۔بنو نضیر سے چونکہ باقاعد جنگ نہیں ہوئی تھی۔ صرف محاصرہ ہوا تھا کہ وہ یہ علاقہ چھوڑکر جانے پر ر اضی ہوگئے چنانچہ ان سے حاصل شدہ اموال منقولہ وغیرمنقولہ سب اموال فے کہلائے جن کا خرچ مکمل طور پرآپ کی صوابدید پر تھا۔ اور آپ نے ان اموال سے شہدائے بدر کے یتیموں اور بعض مفلس مہاجریں و انصار کی خبرگیری فرمائی۔ 1۔قریش مکہ کی دھمکی کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے ان کو سمجھایا کے بیرونی دشمن کے حملہ آور ہونے سے بھی خون ریزی ہواکرتی ہے۔ مگر اسکے بالمقابل قوم آپس میں گھتم گھتا ہوجائے۔ اور اپنے ہاتھوں اپنے عزیزوں کو قتل یا بے آبرو کرنے لگےتواس میں رسوائی زیاد ہ ہے۔ اگر قریش نے حملہ کیا تو بھی مسلمان ان کامقابلہ کرنے میں پیش پیش ہوں گے۔ اس لئے انھیں گھبرانا اور مرعوب نہیں ہونا چاہیے۔ اور اپنے مسلمان عزیزوں کے درپےآذاد ہوجانا کسی طرح دانشمندی نہیں۔2۔یہودیوں کی پیش کش۔پھر ملاقات اوربعدازاں قتال کے سلسلے میں علامہ سیوطی نے لکھا ہے کہ اور یہ روایت مصنف عبدالرزاق میں بھی ہے۔ کہ رسول اللہ ﷺ اپنے تیس صحابہ کو لے کر چلے اوران کے بھی تیس عالم آئے۔ مگروہبہت مرعوب ہوئے۔ اور ان میں سے کچھ نے کہاکہ مسلمانوں سے یہ یوں کیاجائے کہ ساٹھ باسٹھ افراد کے اس جمگھٹے میں بات سمجھنی سمجھانی مشککل ہوگی۔اس لئے آپ اپنے تین صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کو لے کرآیئں۔ اور ہم بھی تین علماء کو لاتے ہیں۔ اگر یہ مان گئے تو ہم مسلمان ہوجایئں گے۔چنانچہ رسول اللہ ﷺ اپنے تین صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کو لے کرچلے اور وہ بھی تین کولے کر چلے۔ مگر وہ اسلحہ بند تھے اور ان کا خفیہ پروگرام یہ تھا کہ یوں ھوکے سے آپﷺ کو قتل کردیں گے۔بنو نضیر میں سے ایک خیر خواہ عورت نے اپنے مسلمان بھائی کو پیغام بھیجا کہ ان لوگوں کا پروگرام ایسا ہی ہے۔ تو وہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ جلدی سے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔قبل اس کے کہ آپ ان کی مجلس میں پہنچں۔تو آپ نے اس ملاقات سے انکار کردیا۔ اوراس غداری کا پردہ کھلنے کے بعد اگلے دن ان کا محاصرہ فرمالیا۔(بزل المجہود)3۔شروع ایام میں ہجرت میں یہود سے میشاق مدینہ کا معاہدہ ہوچکاتھا۔مگر وہ اس کے پابند نہیں رہے تھے۔ اس لئے موقع بہ موقع نئے عہد وپیمان کی ضرورت پیش آتی رہی۔یہ قوم غداری میں معروف تھی بلکہ اب بھی ہے۔ اور پھر بالاخر غدار ی کی وجہ سے انہیں مدینہ بدر ہونا پڑا۔ اور یہ واقعہ بدر کے چھ ماہ بعد جنگ احد سے پہلے کا ہے۔2۔زمی اور معاہد جب اپنے عہد کی پاسداری نہ کرے تو وہ حربی بن جاتا ہے۔ اور پھر اس سے قتال جائز ہوتاہے۔5۔بنو نضیر سے چونکہ باقاعد جنگ نہیں ہوئی تھی۔ صرف محاصرہ ہوا تھا کہ وہ یہ علاقہ چھوڑکر جانے پر ر اضی ہوگئے چنانچہ ان سے حاصل شدہ اموال منقولہ وغیرمنقولہ سب اموال فے کہلائے جن کا خرچ مکمل طور پرآپ کی صوابدید پر تھا۔ اور آپ نے ان اموال سے شہدائے بدر کے یتیموں اور بعض مفلس مہاجریں و انصار کی خبرگیری فرمائی۔