Book - حدیث 3

كِتَابُ الطَّهَارَةِ بَابُ الرَّجُلِ يَتَبَوَّأُ لِبَوْلِهِ ضعیف حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ أَخْبَرَنَا أَبُو التَّيَّاحِ قَالَ حَدَّثَنِي شَيْخٌ قَالَ لَمَّا قَدِمَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ الْبَصْرَةَ فَكَانَ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي مُوسَى فَكَتَبَ عَبْدُ اللَّهِ إِلَى أَبِي مُوسَى يَسْأَلُهُ عَنْ أَشْيَاءَ فَكَتَبَ إِلَيْهِ أَبُو مُوسَى إِنِّي كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ فَأَرَادَ أَنْ يَبُولَ فَأَتَى دَمِثًا فِي أَصْلِ جِدَارٍ فَبَالَ ثُمَّ قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يَبُولَ فَلْيَرْتَدْ لِبَوْلِهِ مَوْضِعًا

ترجمہ Book - حدیث 3

کتاب: طہارت کے مسائل باب: پیشاب کے لئے نرم جگہ تلاش کرنا ابو التیاح کہتے ہیں کہ مجھے ایک شیخ نے بتایا کہ سیدنا عبداللہ بن عباس ؓا جب بصرہ میں ( بحثیت گورنر ) تشریف لائے تو لوگ انہیں سیدنا ابوموسیٰ اشعری ؓ سے سنی ہوئی احادیث بیان کرتے تھے ۔ ( تو اس ضمن میں ) سیدنا عبداللہ بن عباس ؓا نے سیدنا ابوموسیٰ ؓ کے نام ایک خط لکھا : جس میں ان سے کچھ مسائل دریافت کیے چنانچہ سیدنا ابوموسیٰ ؓ نے انہیں جواب میں لکھا : میں ایک دن رسول اللہ ﷺ کی معیت میں تھا تو آپ ﷺ نے پیشاب کرنے کا ارادہ کیا ، پس آپ ﷺ ایک دیوار کی جڑ میں نرم مٹی کے پاس آئے اور پیشاب کیا ۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا ” تم میں سے جب کوئی پیشاب کرنا چاہے تو اس کے لیے ( مناسب نرم ) جگہ تلاش کر لیا کرے ۔ “
تشریح : فوائد ومسائل : 1۔ یہ روایت اگرچہ ایک مجہول روای( شیخ) کی بنا پر ضعیف ہے مگر دیگر صحیح احادیث سے یہ مسئلہ اسی طرح ثابت ہے کہ پیشاب سے ازحد احتیاط کرنی چاہیے کیونکہ انسان کا پیشاب نجس عین ہے اگرچہ اس کا جرم نظر نہیں آتا۔ اس سے بچنا اور طہارت حاصل کرنا فرض ہے ۔ دودھ پیتا بچہ یا سلس البول کا مریض اس حکم سے مستثنیٰ ہے ۔پیشاب کرنے کے لیے ایسی جگہ ڈھونڈنی چاہیے جہاں سے چھینٹے پڑنے کا اندیشہ نہ ہو۔ جگہ نرم نہ ہو تو نرم کرلی جائے۔ یا ڈھلان ایسی ہو کہ پیشاب کے چھینٹوں سے آلودہ ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ دو قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا: ’’ ان دونوں قبروں والوں کو عذاب ہورہا ہے اور باعث عذاب کوئی بڑی چیز نہیں، ان دونوں میں سے ایک پیشاب سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغل خور تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ، الوضوء ، حدیث :218) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پیشاب کے چھینٹوں سے سخت پرہیز کرنا چاہیے۔ وہ لوگ جو پیشاب کرتے وقت چھینٹوں سے پرہیز نہیں کرتے ، اپنے کپڑوں کو نہیں بچاتے ، پیشاب کرکے (پانی کی عدم موجودگی میں ٹشو یا مٹی وغیرہ سے) استنجا کیے بغیر فورا اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ، ان کے پاجامے ،پتلون ،شلوار اور جسم وغیرہ پیشاب سے آلود ہو جاتے ہیں ۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ پیشاب سے نہ بچنا باعث عذاب اور کبیرہ گناہ ہے ۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ ہی سے ایک اور روایت مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے معاملے میں (طہارت سے غفلت برتنے پر) ہوتا ہے ، لہذا اس سے احتیاط کرو۔‘‘ (صحیح الترغیب والترہیب ، الجزء الاول ، حدیث :158) (2) اسلام دین نظافت وطہارت ہے جو کہ فرد اور معاشرے کو داخلی وظاہری ہر لحاظ سے طہارت ونظافت کا پابند بناتا ہے ۔(3) خیرالقروں میں لوگ اصحاب علم وفضل سے مسائل معلوم کیا کرتے تھے اور احادیث کی تحقیق بھی کرتے تھے ، نیز دیگر علماء کی بیان کردہ روایات اور فتوے کی جانچ پرکھ کا اہتمام بھی کرتے تھے ۔(4) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے بھی ، باوجود یکہ آپ اہل بیت کے ذی وجاہت فرد اور جلیل القدر صحابی تھے ، تحقیق مسائل میں حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مراجعت میں کوئی باک محسوس نہیں فرمایا۔ علمائے حق کی یہی شان ہے اور طلبہ وعوام کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ فوائد ومسائل : 1۔ یہ روایت اگرچہ ایک مجہول روای( شیخ) کی بنا پر ضعیف ہے مگر دیگر صحیح احادیث سے یہ مسئلہ اسی طرح ثابت ہے کہ پیشاب سے ازحد احتیاط کرنی چاہیے کیونکہ انسان کا پیشاب نجس عین ہے اگرچہ اس کا جرم نظر نہیں آتا۔ اس سے بچنا اور طہارت حاصل کرنا فرض ہے ۔ دودھ پیتا بچہ یا سلس البول کا مریض اس حکم سے مستثنیٰ ہے ۔پیشاب کرنے کے لیے ایسی جگہ ڈھونڈنی چاہیے جہاں سے چھینٹے پڑنے کا اندیشہ نہ ہو۔ جگہ نرم نہ ہو تو نرم کرلی جائے۔ یا ڈھلان ایسی ہو کہ پیشاب کے چھینٹوں سے آلودہ ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ دو قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا: ’’ ان دونوں قبروں والوں کو عذاب ہورہا ہے اور باعث عذاب کوئی بڑی چیز نہیں، ان دونوں میں سے ایک پیشاب سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغل خور تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ، الوضوء ، حدیث :218) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پیشاب کے چھینٹوں سے سخت پرہیز کرنا چاہیے۔ وہ لوگ جو پیشاب کرتے وقت چھینٹوں سے پرہیز نہیں کرتے ، اپنے کپڑوں کو نہیں بچاتے ، پیشاب کرکے (پانی کی عدم موجودگی میں ٹشو یا مٹی وغیرہ سے) استنجا کیے بغیر فورا اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ، ان کے پاجامے ،پتلون ،شلوار اور جسم وغیرہ پیشاب سے آلود ہو جاتے ہیں ۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ پیشاب سے نہ بچنا باعث عذاب اور کبیرہ گناہ ہے ۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ ہی سے ایک اور روایت مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے معاملے میں (طہارت سے غفلت برتنے پر) ہوتا ہے ، لہذا اس سے احتیاط کرو۔‘‘ (صحیح الترغیب والترہیب ، الجزء الاول ، حدیث :158) (2) اسلام دین نظافت وطہارت ہے جو کہ فرد اور معاشرے کو داخلی وظاہری ہر لحاظ سے طہارت ونظافت کا پابند بناتا ہے ۔(3) خیرالقروں میں لوگ اصحاب علم وفضل سے مسائل معلوم کیا کرتے تھے اور احادیث کی تحقیق بھی کرتے تھے ، نیز دیگر علماء کی بیان کردہ روایات اور فتوے کی جانچ پرکھ کا اہتمام بھی کرتے تھے ۔(4) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے بھی ، باوجود یکہ آپ اہل بیت کے ذی وجاہت فرد اور جلیل القدر صحابی تھے ، تحقیق مسائل میں حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مراجعت میں کوئی باک محسوس نہیں فرمایا۔ علمائے حق کی یہی شان ہے اور طلبہ وعوام کے لیے بہترین نمونہ ہے۔