كِتَابُ الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ بَابٌ فِي بَيَانِ مَوَاضِعِ قَسْمِ الْخُمُسِ وَسَهْمِ ذِي الْقُرْبَىخمس صحیح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي عَيَّاشُ بْنُ عُقْبَةَ الْحَضْرَمِيُّ، عَنِ الْفَضْلِ بْنِ الْحَسَنِ الضَّمْرِيِّ، أَنَّ أُمَّ الْحَكَمِ، أَوْ ضُبَاعَةَ ابْنَتَيِ الزُّبَيْرِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، حَدَّثَتْهُ عَنْ إِحْدَاهُمَا، أَنَّهَا قَالَتْ: أَصَابَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْيًا، فَذَهَبْتُ أَنَا وَأُخْتِي، وَفَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَشَكَوْنَا إِلَيْهِ مَا نَحْنُ فِيهِ، وَسَأَلْنَاهُ أَنْ يَأْمُرَ لَنَا بِشَيْءٍ مِنَ السَّبْيِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " سَبَقَكُنَّ يَتَامَى بَدْرٍ، لَكِنْ سَأَدُلُّكُنَّ عَلَى مَا هُوَ خَيْرٌ لَكُنَّ مِنْ ذَلِكَ: تُكَبِّرْنَ اللَّهَ عَلَى إِثْرِ كُلِّ صَلَاةٍ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ تَكْبِيرَةً، وَثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ تَسْبِيحَةً، وَثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ تَحْمِيدَةً، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ "، قَالَ عَيَّاشٌ: وَهُمَا ابْنَتَا عَمِّ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل
باب: خمس ( غنیمت کا پانچواں حصہ جو رسول اللہ ﷺ لیا کرتے تھے ) کہاں خرچ ہوتا تھا اور قرابت داروں کے حصے کا بیان
سیدنا زبیر بن عبدالمطلب کی صاحبزادیوں ام الحکم یا ضباعہ ؓا میں سے کسی ایک کا بیان ہے کہ
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے تو میں ‘ میرے بہن اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا دختر رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور جس حال میں ہم تھیں آپ کے سامنے اس کا شکوہ کیا ( کہ سب کام اپنے ہاتھ سے کرنے پڑتے ہیں ) ۔ ہم نے درخواست کی کہ ان قیدیوں میں سے ہمارے لیے بھی کسی کا حکم دے دیا جائے ۔ تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” بدر کے یتیم ( جن کے والد بدر میں شہید ہوئے ) تم سے پہلے لے چکے ہیں ‘ لیکن میں تمہیں اس سے بہتر عمل بتاتا ہوں کہ ہر نماز کے بعد تینتیس بار «الله اكبر» تینتیس بار «سبحان الله» ‘ تینتیس بار «الحمد الله» اور ( ایک بار ) «لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير» ” اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ وہ ایک اکیلا ہے ‘ اس کا کوئی شریک ساجھی نہیں ‘ حکومت اسی کی ہے اور تعریف بھی اسی کی ہے اور وہ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے ۔ “ پڑھا کرو ۔ عیاش ( بن عقبہ ) نے کہا : یہ دونوں خواتین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چچا زاد تھیں ۔
تشریح :
1۔ان سیدات کو اگرکچھ ملتا توخمس سے ملتا مگرشائد غنائم وغیرہ کے ساتھ وہ سب بھی شہدائے بدر کے یتیم بچوں میں تقسیم ہوچکا تھا۔2۔نبی کریم ﷺ مادی تعاون کےمعاملے میں زیادہ ضرورت مندوں خصوصا شہداء کے اہل وعیال کو اولیت دیا کرتے تھے۔ اور اپنے عزیزواقارب کے متعلق آپﷺ کی ترجیح یہی تھی کہ وہ بقدر گزران اور قناعت کی زندگی گزاریں۔3۔ سیدات اہل بیت عام مسلمانوں کی خواتین حتیٰ کہ امہات المومنین سبھی اپنے اپنے گھروں میں گھرداری کے تمام کام سر انجام دیتی تھیں۔بعض فقہاء کا یہ کہناکہ بیوی پر اپنے شوہر کی دلداری کے علاوہ اور کچھ واجب نہیں۔(خیرالقرون کے اس تعامل کے اورآئندہ حدیث میں مذکور رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے خلاف ہے۔4۔اللہ کا زکراوراس کی پابندی دنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں خیروبرکات کاباعث ہے جبکہ خادم کافائدہ صرف دنیا تک ہی محدود ہے۔اورآخرت میں جوابدہی کا معاملہ اس پر مستزاد ہے۔5۔اس روایت میں یہ نکتہ بھی ہے کہ دن بھر کی محنت سے جو تکان لاحق ہوتی ہے۔ اس کا ازالہ خادم ہونے کی صورت میں اس سے جو راحت مل سکتی ہے۔ویسی ہی راحت ان تسبیحات سے بھی مل سکتی ہے۔
1۔ان سیدات کو اگرکچھ ملتا توخمس سے ملتا مگرشائد غنائم وغیرہ کے ساتھ وہ سب بھی شہدائے بدر کے یتیم بچوں میں تقسیم ہوچکا تھا۔2۔نبی کریم ﷺ مادی تعاون کےمعاملے میں زیادہ ضرورت مندوں خصوصا شہداء کے اہل وعیال کو اولیت دیا کرتے تھے۔ اور اپنے عزیزواقارب کے متعلق آپﷺ کی ترجیح یہی تھی کہ وہ بقدر گزران اور قناعت کی زندگی گزاریں۔3۔ سیدات اہل بیت عام مسلمانوں کی خواتین حتیٰ کہ امہات المومنین سبھی اپنے اپنے گھروں میں گھرداری کے تمام کام سر انجام دیتی تھیں۔بعض فقہاء کا یہ کہناکہ بیوی پر اپنے شوہر کی دلداری کے علاوہ اور کچھ واجب نہیں۔(خیرالقرون کے اس تعامل کے اورآئندہ حدیث میں مذکور رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے خلاف ہے۔4۔اللہ کا زکراوراس کی پابندی دنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں خیروبرکات کاباعث ہے جبکہ خادم کافائدہ صرف دنیا تک ہی محدود ہے۔اورآخرت میں جوابدہی کا معاملہ اس پر مستزاد ہے۔5۔اس روایت میں یہ نکتہ بھی ہے کہ دن بھر کی محنت سے جو تکان لاحق ہوتی ہے۔ اس کا ازالہ خادم ہونے کی صورت میں اس سے جو راحت مل سکتی ہے۔ویسی ہی راحت ان تسبیحات سے بھی مل سکتی ہے۔