Book - حدیث 2978

كِتَابُ الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ بَابٌ فِي بَيَانِ مَوَاضِعِ قَسْمِ الْخُمُسِ وَسَهْمِ ذِي الْقُرْبَىخمس صحیح حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ عَنْ الزُّهْرِيِّ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ أَخْبَرَنِي جُبَيْرُ بْنُ مُطْعِمٍ أَنَّهُ جَاءَ هُوَ وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ يُكَلِّمَانِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا قَسَمَ مِنْ الْخُمُسِ بَيْنَ بَنِي هَاشِمٍ وَبَنِي الْمُطَّلِبِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَسَمْتَ لِإِخْوَانِنَا بَنِي الْمُطَّلِبِ وَلَمْ تُعْطِنَا شَيْئًا وَقَرَابَتُنَا وَقَرَابَتُهُمْ مِنْكَ وَاحِدَةٌ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا بَنُو هَاشِمٍ وَبَنُو الْمُطَّلِبِ شَيْءٌ وَاحِدٌ قَالَ جُبَيْرٌ وَلَمْ يَقْسِمْ لِبَنِي عَبْدِ شَمْسٍ وَلَا لِبَنِي نَوْفَلٍ مِنْ ذَلِكَ الْخُمُسِ كَمَا قَسَمَ لِبَنِي هَاشِمٍ وَبَنِي الْمُطَّلِبِ قَالَ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يَقْسِمُ الْخُمُسَ نَحْوَ قَسْمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرَ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ يُعْطِي قُرْبَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِيهِمْ قَالَ وَكَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يُعْطِيهِمْ مِنْهُ وَعُثْمَانُ بَعْدَهُ

ترجمہ Book - حدیث 2978

کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل باب: خمس ( غنیمت کا پانچواں حصہ جو رسول اللہ ﷺ لیا کرتے تھے ) کہاں خرچ ہوتا تھا اور قرابت داروں کے حصے کا بیان =جناب سعید بن مسیب ؓ کا بیان ہے کہ ابوبکر صدیق ؓ خمس اسی طرح تقسیم کیا کرتے تھے جیسے کہ رسول اللہ ﷺ کرتے تھے لیکن وہ رسول اللہ ﷺ کے ان قرابت داروں کو اتنا نہ دیتے تھے جتنا رسول اللہ ﷺ دیا کرتے تھے ۔ چنانچہ سیدنا عمر ؓ اور ان کے بعد سیدنا عثمان ؓ ( بھی ) انہیں دیتے رہے ۔
تشریح : اس روایت کا آخری حصہ (وکان ابو بکر۔۔۔) ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمھیں اسی طرح تقسیم کیاکرتے تھے۔۔۔۔ )حضرت جبیر کے قول کا حصہ ہے۔لیکن حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ یہ امام ذہری کا قول ہے۔ جوغلطی سے حضرت جبیر کے قول کے ساتھ درج ہوگیا ہے۔ غالباً اسی لئے امام بخای نے اپنے صحیح میں یہ حصہ زکر نہیں کیا۔(فتح الباری۔کتاب فرض الخمس۔ باب ومن الدلیل علی ان الخمس للامام)فتح الباری کی عبارت سے یہ بھی پتہ چلتا ہے۔کہ ابو دائود کا جو نسخہ حافظ ابن حجر کے سامنے تھا اس میں اس حصے کے درمیان (ما كان النبي صلي الله عليه وسلم يعطيهم) جتنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کو عطا کرتے تھے۔ موجود نہ تھے۔البتہ حافظ ابن حجرکہتے ہیں۔کہ ذیلی نے اس آخری حصے کے مدرج ہونے کی وضاحت کی ہے۔اور یونس عن لیث ہی کی سند سے اس کو زیادہ تفصیل سے روایت کیاہے۔(فتح الباری ایضاً) (ما كان النبي ....الخ)کے الفاظ کے بغیر امام زہری کے قو ل کا مفہوم یہ بنتا ہے۔کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کچھ زوی القربیٰ کو خمس کا حصہ نہیں دیتے تھے۔اس حصے کے ساتھ اصل مفہوم یہ بنتا ہے۔کہ زوی القربیٰ کو مجموعی طور پر اتنا نہ دیتے کہ جتنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عطا فرماتے تھے۔(اگلی حدیث سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے۔) دوسری احادیث سے اس کی وجہ بھی سامنے آجاتی ہے۔سنن نسائی میں حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے یہ وضاحت آتی ہے کہ ان کے(اوران سے پہلے حضرت ابو بکر خود رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کے)نزدیک خمس کے اس حصے کے اخراجات کی مدیں بیوگان کی شادی بڑے خاندان والے کی خبر گیری زوی القربیٰ میں سے مقروضوں کے قرض کی ادایئگی تھیں۔(فتح الباری۔ایضاسنن نسائی اول کتاب قسم الفیء)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نسبتاً زیادہ خوشحالی کی وجہ سے غالبا ً مجموعی طور پر زوی القربیٰ کی ان مدات کےلئے خرچ ہونے والی رقم کی مقدار کم ہوگئی تھی۔اس لئے اب خمس میں سے زوی القربیٰ پرخرچ ہونے والی رقم کی نسبت کم اور عام بیوگان یتامیٰ اور مستحقین پر خرچ ہونے والی رقم کی نسبت زیادہ ہوگئی تھی۔ اگلی احادیث میں اس بات کی طرف اشارہ موجود ہے۔ اور امام زہری نے اپنے قول میں اس بات کی وضاحت کی ہے۔2۔آیت کریمہ میں مذکور زوی القربیٰ کےلفظ کی تشریح ازروئے سنت ان دوخاندانوں سے کی گئی۔جو اقتصادی معاشرتی معاملات میں ہر طرح سے ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ تھے۔3۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاتعلق قبیلہ بنو عبد شمس سے ہے۔اورحضرت جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بنونوفل سے۔یہ دونوں خاندان بنوہاشم کے ساتھ اس طرح کا عملی اشتراک نہیں رکھتے تھے۔جیسا بنوہاشم اور بنومطلب کے درمیان تھا۔ اس روایت کا آخری حصہ (وکان ابو بکر۔۔۔) ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمھیں اسی طرح تقسیم کیاکرتے تھے۔۔۔۔ )حضرت جبیر کے قول کا حصہ ہے۔لیکن حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ یہ امام ذہری کا قول ہے۔ جوغلطی سے حضرت جبیر کے قول کے ساتھ درج ہوگیا ہے۔ غالباً اسی لئے امام بخای نے اپنے صحیح میں یہ حصہ زکر نہیں کیا۔(فتح الباری۔کتاب فرض الخمس۔ باب ومن الدلیل علی ان الخمس للامام)فتح الباری کی عبارت سے یہ بھی پتہ چلتا ہے۔کہ ابو دائود کا جو نسخہ حافظ ابن حجر کے سامنے تھا اس میں اس حصے کے درمیان (ما كان النبي صلي الله عليه وسلم يعطيهم) جتنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کو عطا کرتے تھے۔ موجود نہ تھے۔البتہ حافظ ابن حجرکہتے ہیں۔کہ ذیلی نے اس آخری حصے کے مدرج ہونے کی وضاحت کی ہے۔اور یونس عن لیث ہی کی سند سے اس کو زیادہ تفصیل سے روایت کیاہے۔(فتح الباری ایضاً) (ما كان النبي ....الخ)کے الفاظ کے بغیر امام زہری کے قو ل کا مفہوم یہ بنتا ہے۔کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کچھ زوی القربیٰ کو خمس کا حصہ نہیں دیتے تھے۔اس حصے کے ساتھ اصل مفہوم یہ بنتا ہے۔کہ زوی القربیٰ کو مجموعی طور پر اتنا نہ دیتے کہ جتنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عطا فرماتے تھے۔(اگلی حدیث سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے۔) دوسری احادیث سے اس کی وجہ بھی سامنے آجاتی ہے۔سنن نسائی میں حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے یہ وضاحت آتی ہے کہ ان کے(اوران سے پہلے حضرت ابو بکر خود رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کے)نزدیک خمس کے اس حصے کے اخراجات کی مدیں بیوگان کی شادی بڑے خاندان والے کی خبر گیری زوی القربیٰ میں سے مقروضوں کے قرض کی ادایئگی تھیں۔(فتح الباری۔ایضاسنن نسائی اول کتاب قسم الفیء)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نسبتاً زیادہ خوشحالی کی وجہ سے غالبا ً مجموعی طور پر زوی القربیٰ کی ان مدات کےلئے خرچ ہونے والی رقم کی مقدار کم ہوگئی تھی۔اس لئے اب خمس میں سے زوی القربیٰ پرخرچ ہونے والی رقم کی نسبت کم اور عام بیوگان یتامیٰ اور مستحقین پر خرچ ہونے والی رقم کی نسبت زیادہ ہوگئی تھی۔ اگلی احادیث میں اس بات کی طرف اشارہ موجود ہے۔ اور امام زہری نے اپنے قول میں اس بات کی وضاحت کی ہے۔2۔آیت کریمہ میں مذکور زوی القربیٰ کےلفظ کی تشریح ازروئے سنت ان دوخاندانوں سے کی گئی۔جو اقتصادی معاشرتی معاملات میں ہر طرح سے ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ تھے۔3۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاتعلق قبیلہ بنو عبد شمس سے ہے۔اورحضرت جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بنونوفل سے۔یہ دونوں خاندان بنوہاشم کے ساتھ اس طرح کا عملی اشتراک نہیں رکھتے تھے۔جیسا بنوہاشم اور بنومطلب کے درمیان تھا۔