كِتَابُ الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ بَابٌ فِي صَفَايَا رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مِنْ الْأَمْوَالِ صحیح حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الْمَعْنَى أَنَّ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ أَخْبَرَهُمْ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ عَنْ عُمَرَ قَالَ كَانَتْ أَمْوَالُ بَنِي النَّضِيرِ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِمَّا لَمْ يُوجِفْ الْمُسْلِمُونَ عَلَيْهِ بِخَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ كَانَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَالِصًا يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ قَالَ ابْنُ عَبْدَةَ يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ قُوتَ سَنَةٍ فَمَا بَقِيَ جَعَلَ فِي الْكُرَاعِ وَعُدَّةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ ابْنُ عَبْدَةَ فِي الْكُرَاعِ وَالسِّلَاحِ
کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل
باب: وہ خاص اموال جو رسول اللہ ﷺ اپنے لیے مخصوص کر لیا کرتے تھے
سیدنا مالک بن اوس بن حدثان ؓ ، سیدنا عمر ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ تھے اور نہ اونٹ ۔ اور یہ رسول اللہ ﷺ ہی کے لیے مخصوص تھے ۔ آپ ﷺ اپنے اہل بیت پر خرچ کرتے تھے ۔ ( امام ابوداؤد ؓ کے شیخ ) احمد بن عبدہ نے کہا : آپ ﷺ اپنے اہل کا ایک سال کا خرچ لے لیتے اور جو باقی بچتا اس کو گھوڑوں اور جہاد فی سبیل اللہ کے سامان میں لگا دیتے ۔ ابن عبدہ کے الفاظ تھے «في الكراع والسلاح» ( معنی وہی ہیں جو اوپر بیان ہوئے ہیں ) ۔
تشریح :
1۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے لئے اللہ تعالیٰ نے جو اموال مخصوص کئے وہ تین طرح کے تھے۔(الف) وہ اراضی جو انصار نے اپنی زمینوں میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور ہدیہ پیش کی تھیں۔ان اراضی پرپانی نہیں پہنچتاتھا۔(ب)مخیریق یہودی نے عہد کے موقع پر اسلام لاتے ہوئے بنو نضیر کے علاقے میں اپنے سات باغات کی وصیت رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کی (ج)بنو نضیرنے جب لڑے بغیر ہتھیار ڈال کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ قبول کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلحہ کے علاوہ جوکچھ اونٹوں وغیرہ پر اٹھا کرلے جاسکتے تھے۔لے جانے کی اجازت دی۔باقی سب کچھ فے تھا جس پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اختیار تھا۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کی باقی ماندہ تمام منقولہ جایئداد مسلمانوں میں تقسیم کردی۔زمین وغیرہ کی آمدنی سے اپنے آپ اخراجات پورے کرتے تھے۔لیکن زیادہ آمدنی مسلمانوں کے ولی امر کی حیثیت سے جہاد اوردیگر فوری نوعیت کی ضرورتوں پرخرچ کرتے۔ بعد ازاں خیبر کی فتح کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے وسیع اور زرخیز علاقے مسلمانوں کو عطا کردیئے۔خیبر کا آدھا حصہ فتح ہوا تھا۔ اور جو مجاہدین میں تقسیم ہوا تھا۔ اور باقی آدھا جس میں فدک اور وادی القرُیٰ کے حصے تھے۔ بغیر جنگ کے حاصل ہوا اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق بطورفے آپ کی تحویل میں آگیا۔ اس طرح خیبر کے قلعوں میں سے وطیع اور سلالم بھی بصورت فے حاصل ہوئے۔خیبر کاجو حصہ جنگ کے زریعے سے حاصل ہوا۔ اس کا خمس بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تحویل میں تھا۔(عون المعبود باب فی صفایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من الاموال شرح حدیث 2969)
2۔خیبر کے اموال جب تحویل میں آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں کے سال کے کم از کم مقدار میں کھانے کے اخراجات کےبعد باقی سب آمدنی مصیبت زدہ افراد انسانی اور خاندانی حقوق کی ادایئگی کےلئے مختص کردی۔(ان میں بچوں کی خبر گیری نوجوانوں یا بیوہ عورتوں کی شادی جیسی مدات شامل تھیں۔(ابو دائود۔حدیث 3012۔2970)
3۔حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں جب حضرت فاطمہرضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان اموال کا مطالبہ کیا تو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سنا کے ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مال بطور وراثت تقسیم نہیں ہوگا۔البتہ آل محمد یانساء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کھانے کا خرچ اس میں سے ادا ہوگا۔باقی صدقہ ہوگا۔(ابودائود حدیث 2968۔2974) اور یہ فیصلہ بھی فرمایا کہ ان سب اموال کے انتظام وانصرام کی ذمہ داری رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین کے پاس رہے گی۔اور ان کی آمدنی بعینہ انہی مصارف پرخرچ ہوگی۔ جن پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خرچ فرماتے تھے۔اس فیصلے پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عباسرضی اللہ تعالیٰ عنہ سمیت پوری امت کا اجماع ہوا۔(ابودائود حدیث 2963۔2970)چونکہ ان صفایا (خاص اموال)کو آپ نے صدقہ قرار دیا تھا۔اس لئے اب ان اموال کو صفایا کی بجائے صدقۃ الرسول کہا جائےگا۔(ابودائود ۔حدیث 2968۔2970)
1۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے لئے اللہ تعالیٰ نے جو اموال مخصوص کئے وہ تین طرح کے تھے۔(الف) وہ اراضی جو انصار نے اپنی زمینوں میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور ہدیہ پیش کی تھیں۔ان اراضی پرپانی نہیں پہنچتاتھا۔(ب)مخیریق یہودی نے عہد کے موقع پر اسلام لاتے ہوئے بنو نضیر کے علاقے میں اپنے سات باغات کی وصیت رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کی (ج)بنو نضیرنے جب لڑے بغیر ہتھیار ڈال کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ قبول کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلحہ کے علاوہ جوکچھ اونٹوں وغیرہ پر اٹھا کرلے جاسکتے تھے۔لے جانے کی اجازت دی۔باقی سب کچھ فے تھا جس پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اختیار تھا۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کی باقی ماندہ تمام منقولہ جایئداد مسلمانوں میں تقسیم کردی۔زمین وغیرہ کی آمدنی سے اپنے آپ اخراجات پورے کرتے تھے۔لیکن زیادہ آمدنی مسلمانوں کے ولی امر کی حیثیت سے جہاد اوردیگر فوری نوعیت کی ضرورتوں پرخرچ کرتے۔ بعد ازاں خیبر کی فتح کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے وسیع اور زرخیز علاقے مسلمانوں کو عطا کردیئے۔خیبر کا آدھا حصہ فتح ہوا تھا۔ اور جو مجاہدین میں تقسیم ہوا تھا۔ اور باقی آدھا جس میں فدک اور وادی القرُیٰ کے حصے تھے۔ بغیر جنگ کے حاصل ہوا اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق بطورفے آپ کی تحویل میں آگیا۔ اس طرح خیبر کے قلعوں میں سے وطیع اور سلالم بھی بصورت فے حاصل ہوئے۔خیبر کاجو حصہ جنگ کے زریعے سے حاصل ہوا۔ اس کا خمس بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تحویل میں تھا۔(عون المعبود باب فی صفایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من الاموال شرح حدیث 2969)
2۔خیبر کے اموال جب تحویل میں آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں کے سال کے کم از کم مقدار میں کھانے کے اخراجات کےبعد باقی سب آمدنی مصیبت زدہ افراد انسانی اور خاندانی حقوق کی ادایئگی کےلئے مختص کردی۔(ان میں بچوں کی خبر گیری نوجوانوں یا بیوہ عورتوں کی شادی جیسی مدات شامل تھیں۔(ابو دائود۔حدیث 3012۔2970)
3۔حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں جب حضرت فاطمہرضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان اموال کا مطالبہ کیا تو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سنا کے ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مال بطور وراثت تقسیم نہیں ہوگا۔البتہ آل محمد یانساء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کھانے کا خرچ اس میں سے ادا ہوگا۔باقی صدقہ ہوگا۔(ابودائود حدیث 2968۔2974) اور یہ فیصلہ بھی فرمایا کہ ان سب اموال کے انتظام وانصرام کی ذمہ داری رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین کے پاس رہے گی۔اور ان کی آمدنی بعینہ انہی مصارف پرخرچ ہوگی۔ جن پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خرچ فرماتے تھے۔اس فیصلے پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عباسرضی اللہ تعالیٰ عنہ سمیت پوری امت کا اجماع ہوا۔(ابودائود حدیث 2963۔2970)چونکہ ان صفایا (خاص اموال)کو آپ نے صدقہ قرار دیا تھا۔اس لئے اب ان اموال کو صفایا کی بجائے صدقۃ الرسول کہا جائےگا۔(ابودائود ۔حدیث 2968۔2970)