كِتَابُ الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ بَابٌ فِيمَا يَلْزَمُ الْإِمَامُ مِنْ أَمْرِ الرَّعِيَّةِ وَالْحَجَبَةِ عَنْهُ حسن موقوف حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ قَالَ ذَكَرَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَوْمًا الْفَيْءَ فَقَالَ مَا أَنَا بِأَحَقَّ بِهَذَا الْفَيْءِ مِنْكُمْ وَمَا أَحَدٌ مِنَّا بِأَحَقَّ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا أَنَّا عَلَى مَنَازِلِنَا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَقَسْمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَالرَّجُلُ وَقِدَمُهُ وَالرَّجُلُ وَبَلَاؤُهُ وَالرَّجُلُ وَعِيَالُهُ وَالرَّجُلُ وَحَاجَتُهُ
کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل
باب: رعیت کے تعلق سے حاکم کے فرائض کا بیان اور یہ کہ وہ عوام کو ملنے سے گریز نہ کرے
جناب مالک بن اوس بن حدثان ؓ نے بیان کیا کہ ایک دن سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے مال فے کا ذکر کیا اور کہا : اس مال کا میں تم سے زیادہ حقدار نہیں ہوں اور نہ ہم میں سے کوئی ایک کسی دوسرے پر زیادہ حق رکھتا ہے ، سوائے اس کے کہ ہم اللہ کی کتاب کی رو سے اور رسول اللہ ﷺ کی تقسیم کے مطابق اپنے اپنے مرتبہ پر ہیں ، یا تو کوئی اسلام قبول کرنے میں سبقت کر چکا ہے یا کوئی اسلام کے لیے اپنی بہادری کے جوہر دکھانے والا ہے یا کوئی عیالدار ہے یا کوئی حاجت مند ( لہٰذا ان ہی اعتبارات سے یہ مال تقسیم کیا جاتا ہے ) ۔
تشریح :
دنیا میں اولیت اسلام کودل وجان سے قبول کرلینے کی اولیت میں ہے یا اس کے لئے جان کی بازی لڑانے میں ہے۔آخرت میں بھی درجات اسی اعتبار سے ملیں گے۔ اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین سب سے اولین میں سے ہوں گے۔وسائل کی تقسیم کے حوالے سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پالیسی دنیا کے لئے ماڈل ہے۔ آپ اس پالیسی کے حوالے سے اپنے احتساب کو خندہ پیشانی سے قبول فرماتے تھے۔ بلکہ احتساب کی حوصلہ افزائی کرتے۔
دنیا میں اولیت اسلام کودل وجان سے قبول کرلینے کی اولیت میں ہے یا اس کے لئے جان کی بازی لڑانے میں ہے۔آخرت میں بھی درجات اسی اعتبار سے ملیں گے۔ اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین سب سے اولین میں سے ہوں گے۔وسائل کی تقسیم کے حوالے سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پالیسی دنیا کے لئے ماڈل ہے۔ آپ اس پالیسی کے حوالے سے اپنے احتساب کو خندہ پیشانی سے قبول فرماتے تھے۔ بلکہ احتساب کی حوصلہ افزائی کرتے۔