كِتَابُ الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ بَابٌ فِي الْخَلِيفَةِ يَسْتَخْلِفُ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ سُفْيَانَ وَسَلَمَةُ قَالَا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ عُمَرُ إِنِّي إِنْ لَا أَسْتَخْلِفْ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَسْتَخْلِفْ وَإِنْ أَسْتَخْلِفْ فَإِنَّ أَبَا بَكْرٍ قَدْ اسْتَخْلَفَ قَالَ فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ ذَكَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَكْرٍ فَعَلِمْتُ أَنَّهُ لَا يَعْدِلُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدًا وَأَنَّهُ غَيْرُ مُسْتَخْلِفٍ
کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل
باب: خلیفہ اپنے جانشین کا نام دے
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر ؓ نے ( جب وہ زخمی کیے گئے تو انہیں اپنا جانشین بنا جانے کے متعلق کہا گیا ، تو انہوں نے ) کہا : اگر میں ( اپنا ) جانشین نہ بناؤں تو ( صحیح ہے ) کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے جانشیں نہیں بنایا تھا اور اگر بنا جاؤں تو بھی ( درست ہے ) کیونکہ سیدنا ابوبکر ؓ جانشین بنا گئے تھے ۔ سیدنا ابن عمر ؓ کہتے ہیں : اللہ کی قسم ! انہوں نے اللہ کے رسول ﷺ اور سیدنا ابوبکر ؓ ہی کا نام لیا اور مجھے یقین ہو گیا کہ وہ اللہ کے رسول ﷺ کے برابر کسی کو نہیں سمجھیں گے اور وہ کسی کو خلیفہ مقرر کرنے والے نہیں ۔
تشریح :
بلاشبہ رسول اللہ ﷺ کے برابر اور ہم پلہ بنوآدم میں سے کوئی نہیں۔اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جلیل القدر چھ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین مقرر فرمادیئے۔ کہ انھیں میں سے کسی کو خلفیہ بنادیا جائے۔اور وہ تھے ۔عثمانرضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔طلحہرضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔زبیررضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔عبد الرحمٰن بن عوفرضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ اور سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بعد اذاں مذید وضاحت بھی فرمائی۔کہ انہوں نے اپنے بعد کسی کا نام تجویز کیوں نہیں کیا۔؟جب لوگوں نے کہا کہ آپ ﷺ اپنے جانشین کا نام تجویز کریں۔ تو آپ ﷺنے جواب دیا۔میں اس کام کےلئے ان لوگوں سے زیادہ مستحق کسی کونہیں سمجھتا۔کہ رسول اللہ ﷺ جب رخصت ہوئے تو ان سے راضی تھے۔ پھر امارت کا فیصلہ کرنے کےلئے ان حضرات کے نام گنوائے۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت زبیررضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت طلحہرضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔اورحضرت عبد الرحمٰن بن عوفرضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔اور یہ بھی کہا کہ حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آپ کے ساتھ ہوں گے۔لیکن وہ امارت کے عہدے پر فائز نہیں ہوسکتے۔(صحیح البخاری۔کتاب الفضائل الصحابہ باب قصہ البعیۃ حدیث۔3700)اس موقع پرایک شخص نے کہا آپ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا جانشین نامزد کرادیں۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا!اللہ کی قسم اس بات پر تیرا مقصوداللہ کی رضا نہیں ایک اور صحیح ر وایت کے مطابق آپ نے اس کو جواب دیا اللہ تجھے ہلاک کرے تو نے اللہ کی رضا کےلئے ایسا نہیں کہا۔کیا میں ایسے آدمی کو خلیفہ بنادوں جو صحیح طریق سے بیوی کوطلا ق بھی نہیں دے سکتا؟
آپ کو اندازہ تھا کہ شوریٰ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا حضرت علیرضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نامزد کرے گی۔اس لئے آپ نے دونوں کو بلاکر وصیت کی پھر حضرت صبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلاکر کہا۔ آپ تین دن تک لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ اور یہ لوگ اپنے گھر میں اپنا اجتماع کریں۔جب سب ایک شخص پر اتفاق کرلیں۔تو جوکوئی مخالفت کرے اسے قتل کردیں۔ یہ بات سن کر یہ حضرات باہرآئے۔ تو آپ نے فرمایا۔اگر یہ لوگ اجلح(حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کوولی الامر بنادیں تو وہ انہیں لے کرجادہ مستقیم پرگامزن رہیں گے۔ بیٹے نے کہا۔آپ ان (حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کو نامزد کیوں نہیں کردیتے(کیونکہ جس طرح اوپربیان ہوا کہ لوگ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح یہ معاملہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تفویض کرنے کی پیش کش کرچکے تھے)فرمایا مجھے پسند نہیں کہ میں زندگی میں بھی یہ بوجھ اٹھائوں اور مرنے کے بعد بھی(فتح الباری۔کتاب فضائل الصحابہ باب قصۃ البیعہ 87/7)
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں۔کہ ابن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صحیح سند سے روایت کیاہے۔یہ لوگ (جن پر مشتمل کمیشن آپ نے بنایا تھا۔) آپکی طرف آئے تو آپ نے متوجہ ہوکر ان کی طرف فرمایا میں نے لوگوں کے معاملے کا مشاہدہ کیا ہے۔ان میں کوئی اختلاف نہیں ہے اگر کوئی اختلاف ہوسکتاہے تو تم لوگوں میں ہی ہوگا۔یہ معاملہ اب تمہارے سپرد ہے۔(حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے مویشیوں کے پاس (مدینہ ) سے باہر تھے۔ اس کے بعد فرمایا جب تمہاری قوم تین اشخاص حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا کسی کو امیر نہیں بنائے گی۔ تو جو تم میں سے امیر بنے وہ اپنے اقرباء کولوگوں کی گردنوں پر سوار نہ کرے۔اٹھو اورمشورہ کرو۔پھر حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا۔ابھی توقف کرو۔ اگرمیرا وقت آجائے تو تین دن تک حضرت صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ امام کروایئں۔ او ر تم میں سے جو کوئی بھی مسلمانوں کے مشورے کے بغیر امارت پر مسلط ہو اس کی گردن اڑادو(فتح الباری حوالہ سابقہ)اس تمام واقع سے جو نتائج سامنے آتے ہیں وہ درج زیل ہیں۔
1۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کے طریقے پر عمل کیا۔ اور اپنی طرف سے تجویز دینے یا لوگوں کی طرف سے تجویز دینے یا لوگوں کی طرف سے تلقین کردہ جانشین کے تعین کاحق استعمال کرنے کی بجائے مکمل طور پر آذاد شوریٰ کے ذریعے سے امیر کاتعین کاراستہ دیکھایا۔
2۔آپ نے شوریٰ کےلئے جو کمیشن تجویز کیا۔وہ ان لوگوں پر مشتمل تھا۔جن کاکردار ایسا تھاکہ رسول اللہ ﷺ ان سے راضی تھے۔
3۔یہ لوگ ایسے تھے کہ ان لوگوں کے متفقہ فیصلے پر پوری امت کا اتفاق تھا۔اور ان کے اختلاف سے امت میں تفرقہ پڑ سکتا تھا۔یعنی یہی پوری امت کے معتمد ترین نمایئندے تھے۔
4۔آپ نے اپنے بیٹے کو خلافت دیئے جانے کے امکان کو بھی ختم کردیا۔
5۔ آپ کوجس نے مشورہ دیا کہ آپ اپنے بیتے کو جانشین بنادیں۔آپ ان پرسخت ناراض ہوئے۔ اسے اللہ کے غضب سے ہلاک ہونے کی بدعا دی۔اور اس بات کواللہ کی نارضگی کا سبب گردانا۔
6۔آپ کو لوگوں کے انتخاب کا صحیح اندازہ تھا۔ اس لئے آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بعد ازاں حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امارت پر فائز ہوجانے کے بعد معاملات چلانے کے معاملے میں ضروری نصیحت فرمائی۔ اور وہ یہ تھی کہ جس طرح میں نے اپنے بیٹے کو خلافت سے دور رکھا ہے۔ اسیطرح امور خلافت چلانے میں بھی اقرباء کو شامل نہ کیاجائے۔
7۔ آپ نے یہ بھی واضح کردیا کہ امت میں اختلاف کا ایک اہم سبب قیادت کے درمیان اختلاف ہوتا ہے۔گویاآپ نے ان زعماء کو بھی اتفاق واختلاف کا زمہ دار قراردیا۔
8۔ آپ نے وسیع تر دائرے تک مشاورت کی غرض سے اس کمیشن کو کافی وقت دیا۔اور یہ کہا کہ جائو او ر فورا مشاورت کرو۔اس کمیشن کو واضح طور پر امیر کے تعین کاطریق کاریاد کرادیا۔
9۔ یہ بھی واضح ہدایت دی کہ معتمد نمایندے فیصلہ کرلیں۔ توانتشار پھیلانے والا باغی متصور ہوگا۔اور اس کی سزا موت ہوگی۔
10۔ یہ بھی واضح کردیا کہ لوگوں کی مشاور ت کے بغیر حکومت پرقبضہ کرنے والا بھی باغی ہوتاہے۔اور اس کی سزا بھی موت ہے۔
بلاشبہ رسول اللہ ﷺ کے برابر اور ہم پلہ بنوآدم میں سے کوئی نہیں۔اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جلیل القدر چھ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین مقرر فرمادیئے۔ کہ انھیں میں سے کسی کو خلفیہ بنادیا جائے۔اور وہ تھے ۔عثمانرضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔طلحہرضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔زبیررضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔عبد الرحمٰن بن عوفرضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ اور سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بعد اذاں مذید وضاحت بھی فرمائی۔کہ انہوں نے اپنے بعد کسی کا نام تجویز کیوں نہیں کیا۔؟جب لوگوں نے کہا کہ آپ ﷺ اپنے جانشین کا نام تجویز کریں۔ تو آپ ﷺنے جواب دیا۔میں اس کام کےلئے ان لوگوں سے زیادہ مستحق کسی کونہیں سمجھتا۔کہ رسول اللہ ﷺ جب رخصت ہوئے تو ان سے راضی تھے۔ پھر امارت کا فیصلہ کرنے کےلئے ان حضرات کے نام گنوائے۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت زبیررضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت طلحہرضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔اورحضرت عبد الرحمٰن بن عوفرضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔اور یہ بھی کہا کہ حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آپ کے ساتھ ہوں گے۔لیکن وہ امارت کے عہدے پر فائز نہیں ہوسکتے۔(صحیح البخاری۔کتاب الفضائل الصحابہ باب قصہ البعیۃ حدیث۔3700)اس موقع پرایک شخص نے کہا آپ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا جانشین نامزد کرادیں۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا!اللہ کی قسم اس بات پر تیرا مقصوداللہ کی رضا نہیں ایک اور صحیح ر وایت کے مطابق آپ نے اس کو جواب دیا اللہ تجھے ہلاک کرے تو نے اللہ کی رضا کےلئے ایسا نہیں کہا۔کیا میں ایسے آدمی کو خلیفہ بنادوں جو صحیح طریق سے بیوی کوطلا ق بھی نہیں دے سکتا؟
آپ کو اندازہ تھا کہ شوریٰ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا حضرت علیرضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نامزد کرے گی۔اس لئے آپ نے دونوں کو بلاکر وصیت کی پھر حضرت صبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلاکر کہا۔ آپ تین دن تک لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ اور یہ لوگ اپنے گھر میں اپنا اجتماع کریں۔جب سب ایک شخص پر اتفاق کرلیں۔تو جوکوئی مخالفت کرے اسے قتل کردیں۔ یہ بات سن کر یہ حضرات باہرآئے۔ تو آپ نے فرمایا۔اگر یہ لوگ اجلح(حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کوولی الامر بنادیں تو وہ انہیں لے کرجادہ مستقیم پرگامزن رہیں گے۔ بیٹے نے کہا۔آپ ان (حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کو نامزد کیوں نہیں کردیتے(کیونکہ جس طرح اوپربیان ہوا کہ لوگ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح یہ معاملہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تفویض کرنے کی پیش کش کرچکے تھے)فرمایا مجھے پسند نہیں کہ میں زندگی میں بھی یہ بوجھ اٹھائوں اور مرنے کے بعد بھی(فتح الباری۔کتاب فضائل الصحابہ باب قصۃ البیعہ 87/7)
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں۔کہ ابن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صحیح سند سے روایت کیاہے۔یہ لوگ (جن پر مشتمل کمیشن آپ نے بنایا تھا۔) آپکی طرف آئے تو آپ نے متوجہ ہوکر ان کی طرف فرمایا میں نے لوگوں کے معاملے کا مشاہدہ کیا ہے۔ان میں کوئی اختلاف نہیں ہے اگر کوئی اختلاف ہوسکتاہے تو تم لوگوں میں ہی ہوگا۔یہ معاملہ اب تمہارے سپرد ہے۔(حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے مویشیوں کے پاس (مدینہ ) سے باہر تھے۔ اس کے بعد فرمایا جب تمہاری قوم تین اشخاص حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا کسی کو امیر نہیں بنائے گی۔ تو جو تم میں سے امیر بنے وہ اپنے اقرباء کولوگوں کی گردنوں پر سوار نہ کرے۔اٹھو اورمشورہ کرو۔پھر حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا۔ابھی توقف کرو۔ اگرمیرا وقت آجائے تو تین دن تک حضرت صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ امام کروایئں۔ او ر تم میں سے جو کوئی بھی مسلمانوں کے مشورے کے بغیر امارت پر مسلط ہو اس کی گردن اڑادو(فتح الباری حوالہ سابقہ)اس تمام واقع سے جو نتائج سامنے آتے ہیں وہ درج زیل ہیں۔
1۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کے طریقے پر عمل کیا۔ اور اپنی طرف سے تجویز دینے یا لوگوں کی طرف سے تجویز دینے یا لوگوں کی طرف سے تلقین کردہ جانشین کے تعین کاحق استعمال کرنے کی بجائے مکمل طور پر آذاد شوریٰ کے ذریعے سے امیر کاتعین کاراستہ دیکھایا۔
2۔آپ نے شوریٰ کےلئے جو کمیشن تجویز کیا۔وہ ان لوگوں پر مشتمل تھا۔جن کاکردار ایسا تھاکہ رسول اللہ ﷺ ان سے راضی تھے۔
3۔یہ لوگ ایسے تھے کہ ان لوگوں کے متفقہ فیصلے پر پوری امت کا اتفاق تھا۔اور ان کے اختلاف سے امت میں تفرقہ پڑ سکتا تھا۔یعنی یہی پوری امت کے معتمد ترین نمایئندے تھے۔
4۔آپ نے اپنے بیٹے کو خلافت دیئے جانے کے امکان کو بھی ختم کردیا۔
5۔ آپ کوجس نے مشورہ دیا کہ آپ اپنے بیتے کو جانشین بنادیں۔آپ ان پرسخت ناراض ہوئے۔ اسے اللہ کے غضب سے ہلاک ہونے کی بدعا دی۔اور اس بات کواللہ کی نارضگی کا سبب گردانا۔
6۔آپ کو لوگوں کے انتخاب کا صحیح اندازہ تھا۔ اس لئے آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بعد ازاں حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امارت پر فائز ہوجانے کے بعد معاملات چلانے کے معاملے میں ضروری نصیحت فرمائی۔ اور وہ یہ تھی کہ جس طرح میں نے اپنے بیٹے کو خلافت سے دور رکھا ہے۔ اسیطرح امور خلافت چلانے میں بھی اقرباء کو شامل نہ کیاجائے۔
7۔ آپ نے یہ بھی واضح کردیا کہ امت میں اختلاف کا ایک اہم سبب قیادت کے درمیان اختلاف ہوتا ہے۔گویاآپ نے ان زعماء کو بھی اتفاق واختلاف کا زمہ دار قراردیا۔
8۔ آپ نے وسیع تر دائرے تک مشاورت کی غرض سے اس کمیشن کو کافی وقت دیا۔اور یہ کہا کہ جائو او ر فورا مشاورت کرو۔اس کمیشن کو واضح طور پر امیر کے تعین کاطریق کاریاد کرادیا۔
9۔ یہ بھی واضح ہدایت دی کہ معتمد نمایندے فیصلہ کرلیں۔ توانتشار پھیلانے والا باغی متصور ہوگا۔اور اس کی سزا موت ہوگی۔
10۔ یہ بھی واضح کردیا کہ لوگوں کی مشاور ت کے بغیر حکومت پرقبضہ کرنے والا بھی باغی ہوتاہے۔اور اس کی سزا بھی موت ہے۔