Book - حدیث 2933

كِتَابُ الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ بَابٌ فِي الْعِرَافَةِ ضعیف حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ سُلَيْمَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ جَابِرٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ يَحْيَى بْنِ الْمِقْدَامِ، عَنْ جَدِّهِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَرَبَ عَلَى مَنْكِبِهِ، ثُمَّ قَالَ لَهُ: «أَفْلَحْتَ يَا قُدَيْمُ إِنْ مُتَّ وَلَمْ تَكُنْ أَمِيرًا، وَلَا كَاتِبًا وَلَا عَرِيفًا»

ترجمہ Book - حدیث 2933

کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل باب: قوم کی نمائندگی سیدنا مقدام بن معدیکرب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کے کندھے پر ہاتھ مارا ، پھر فرمایا ” اے قدیم ! ( قاف کی پیش اور دال پر زبر کے ساتھ ) تو کامیاب ہوا اگر اس حال میں فوت ہوا کہ نہ امیر بنا ، نہ اس کا سیکرٹری اور نہ عریف ( اپنی قوم کا سردار) ۔ “
تشریح : اس باب کی دونوں حدیثیں سنداً ضعیف ہیں۔ لیکن اس حدیث سے اور اس سے اگلی حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے۔کے عریف یا گائوں کے چودھری ملک اوروذیرے کا دستور قدیم سے موجود تھا۔ اور یہ لوگ ماضی کی روایات کے تحت معاشرے کی ایک اہم ضرورت پوری کرتے تھے۔ لیکن بہت سی ناروا باتیں نمایندگی میں عدم توازن لوگوں کے بعض حقوق سے اغماض جیسی غلطیاں بھی ان سے سر زد ہوتی تھیں۔اس قدیم طریق کے مطابق چل کر زمہ داریاں نبھانا اسلام کے تصور عدل کے مطابق تو نہ تھا لیکن جب تک ایماندار تربیت یافتہ عملہ حاصل نہ ہوجاتا۔ اور ان کو ہر جگہ متعین نہ کردیاجاتا۔انہیں لوگوں سے کام لیناناگزیر تھا۔ رسول اللہ ﷺ اور آپﷺ کے خلفاء نے مختلف آبادیوں کی نمائندگی اور انتظام اور انصرام کےلئے متعدد طریق اختیار فرمائے۔ بعض اوقات قبائل میں سے مسلمان ہونے والے لوگوں کی دینی تربیت کرکے یہ زمہ داریاں ان کے سپرد کردیں۔ بعض اوقات سابقہ عریفوں کو ہی نئی ہدایات کے ساتھ اپنے منصب پر برقرار رکھا۔ بعض اوقات اپنی تربیت یافتہ ٹیم سے لوگ بھیج دیے۔ بعض دفعہ تربیت دینے والے بھیجے۔جو مقامی افراد کو تیار کرکے وہاں کے معاملات اان کے سپرد کرکے واپس آجاتے۔یہ تمام طریقے صحیح احادیث میں مذکور ہیں۔ علاوہ ازیں حکومتی مناصب کی زمہ داریاں دنیا اور آخرت کے لہاظ سے بڑی سخت ہیں۔ لیکن اگر ایمان اور دیانت سے یہ فرائض نبھائے جاییں تو اس کاجر بھی بہت زیادہ ہے۔ اس باب کی دونوں حدیثیں سنداً ضعیف ہیں۔ لیکن اس حدیث سے اور اس سے اگلی حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے۔کے عریف یا گائوں کے چودھری ملک اوروذیرے کا دستور قدیم سے موجود تھا۔ اور یہ لوگ ماضی کی روایات کے تحت معاشرے کی ایک اہم ضرورت پوری کرتے تھے۔ لیکن بہت سی ناروا باتیں نمایندگی میں عدم توازن لوگوں کے بعض حقوق سے اغماض جیسی غلطیاں بھی ان سے سر زد ہوتی تھیں۔اس قدیم طریق کے مطابق چل کر زمہ داریاں نبھانا اسلام کے تصور عدل کے مطابق تو نہ تھا لیکن جب تک ایماندار تربیت یافتہ عملہ حاصل نہ ہوجاتا۔ اور ان کو ہر جگہ متعین نہ کردیاجاتا۔انہیں لوگوں سے کام لیناناگزیر تھا۔ رسول اللہ ﷺ اور آپﷺ کے خلفاء نے مختلف آبادیوں کی نمائندگی اور انتظام اور انصرام کےلئے متعدد طریق اختیار فرمائے۔ بعض اوقات قبائل میں سے مسلمان ہونے والے لوگوں کی دینی تربیت کرکے یہ زمہ داریاں ان کے سپرد کردیں۔ بعض اوقات سابقہ عریفوں کو ہی نئی ہدایات کے ساتھ اپنے منصب پر برقرار رکھا۔ بعض اوقات اپنی تربیت یافتہ ٹیم سے لوگ بھیج دیے۔ بعض دفعہ تربیت دینے والے بھیجے۔جو مقامی افراد کو تیار کرکے وہاں کے معاملات اان کے سپرد کرکے واپس آجاتے۔یہ تمام طریقے صحیح احادیث میں مذکور ہیں۔ علاوہ ازیں حکومتی مناصب کی زمہ داریاں دنیا اور آخرت کے لہاظ سے بڑی سخت ہیں۔ لیکن اگر ایمان اور دیانت سے یہ فرائض نبھائے جاییں تو اس کاجر بھی بہت زیادہ ہے۔